جواب:
آب حیات کی حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض لوگ تو اس کو افسانے کے علاوہ
کچھ نہیں سمجھتے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ کہ آبِ حیات کا تذکرہ نہ تو کلام اللہ
کی کسی آیت میں ہے اور نہ ہی کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی روایت میں ہے۔
کچھ مفسرین نے سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے آبِ حیات کے بارے میں بات کی
ہے، جن میں حضرت ذوالقرنین کے سفر کا تذکرہ ہے۔
حضرت سید نعیم الدین مراد آبادی تفسیر خزائن العرفان میں سورہ الکہف کی آیت نمبر 86
تا 98 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے۔ وہ آب حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے اور اس کا پانی بھی پی لیا، مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر میں آپ جانبِ مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے وہ سب منزلیں طے کر کے آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جو جانوروں کی کھال پہنے ہوئے تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک'' کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بےبس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو گئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو گئے۔
مرادآبادی، نعيم الدين، محمد، سيد، خزائن العرفان: 565، مکتبة المدينة
اسی طرح تفسیر خازن میں امام علاؤالدین علی بن محمد نے اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں، اور ہر سال زمانہ حج میں ملتے ہیں، اور یہ کہ حضرت خضر نے چشمہ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا تھا۔
آب حیات یا چشمہ حیات کے بارے میں یہی معلومات کتب میں درج ہیں۔ اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔