جواب:
قبور کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ آئمۂِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ آئمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جمیع مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول مبارک بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، انہیں سلام کہتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا فرما تے۔ اس کے علاوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہدائے بدر کی قبور پر تشریف لے جانا اور بوڑھی عورت کی قبر پر جا کر اس کا جنازہ پڑھنا بھی ثابت ہے۔ جن لوگوں نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک بار تشریف لے گئے ہیں یہ ان کی جہالت ہے یا اسلام دشمنی ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارتِ قبور کی ترغیب دی اور اسے موت کی یاد دلانے اور گناہوں سے بچانے والا عمل قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَزُوْرُوا القُبُوْرَ فَإِنَّهَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ
’’تم قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
اس موضوع کی مکمل وضاحت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’زیارت قبور‘ ملاحظہ کریں۔
جو قاعدہ آپ نے بیان کیا ہے کہ جو عمل حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ کیا ہے ہمیں بھی ایک ہی مرتبہ کرنا چاہیے ورنہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے پڑھ جائیں گے۔ یہ قاعدہ اور کلیہ نہ تو آئمہ نے بیان کیا اور نہ اسے کبھی تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملِ مبارک سے آگے بڑھنے سے مراد یہ ہے کہ ایک عمل سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور انسان اسی عمل کو کرے۔ اگر آپ کے بیان کردہ قاعدہ کو دین کے ہر معاملے میں لاگو کریں تو دین پر عمل کرنے میں بےشمار مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔