جواب:
قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی تعلیمات میں بچے کا نام رکھنے کے لیے ستارہ ملانے کا حکم نہیں دیا، بلکہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام کے اچھے ہونے کی شرط بیان کی ہے۔ اسلام نے بچے کے حقوق کے باب میں ایک حق یہ بھی شامل کیا ہے کہ اُسے پیارا سا نام دیا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب اپنے بچوں کے عجیب و غریب نام رکھا کرتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نام ناپسند فرمایا اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔ امام طوسی روایت کرتے ہیں:
جاء رجل الیٰ النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم فقال يارسول الله ماحق ابنی هٰذا؟ قال (صلیٰ الله عليه وآله وسلم) تحسن اسمه و ادبه و صنعه موضعاً حسناً
’’ایک شخص رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا: یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔‘‘
محمد بن احمد صالح، الطفل في الشريعة الاسلامية : 74، قاهرة، مصر
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنکم تدعون يوم القيامة بأسمائکم و أسماء آبائکم، فأحسنوا أسمائکم.
’’روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔‘‘
اسی طرح حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تسمو بأسماء الأنبياء، و أحب الأسماء إلي اﷲ عبد اﷲ و عبد الرحمن، و أصد قها حارث و همام، و أقبحها حرب و مرة.
’’انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور اﷲ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے ’عبداﷲ‘ اور ’عبدالرحمٰن‘ زیادہ پسند ہیں۔ سب ناموں سے سچے نام ’حارث‘ اور ’ہمام‘ ہیں جب کہ سب سے برے نام ’حرب‘ اور ’مرہ‘ ہیں۔‘‘
امام ابوداؤد ’السنن (4 : 289)‘ میں لکھتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’عاص‘، ’عزیز‘، ’عَتَلَہ‘، ’شیطان‘، ’حکم‘، ’غُراب‘، ’حُباب‘، ’شِہاب‘ وغیرہ نام بدل دیئے۔ پس ’شہاب‘ کا نام ’ہشام‘ رکھا، ’حرب‘ کا نام ’سلم‘ رکھا اور ’مضطجع‘ کا نام ’منبعث‘ رکھا۔ جس زمین کو ’عفرہ‘ کہا جاتا تھا اس کا نام ’خضرہ‘ رکھا اور ’شعب الضلالہ‘ کا نام ’شعب الھدیٰ‘ رکھا۔ ’بنو زینت‘ کا نام ’بنو رَشدہ‘ رکھا اور ’بنی مغویہ‘ کا نام ’بنی رِشدہ‘ رکھا۔
مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اچھے ناموں کو پسند فرمایا بلکہ اچھے نام رکھنے کا حکم بھی دیا اور اسے بچے کا پیدائش کے بعد اولین حق قرار دیا۔
پیدائش کے بعد بچے کو غسل دے کر اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: نومولود کے کان میں اذان دینے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
حضرت ابو موسی اشعری اپنے بیٹے کی گھٹی دینے کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:
وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَاَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ فَحَنَّکَهُ بِتَمْرَةٍ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ وَدَفَعَهُ إِلَيَّ. وَکَانَ اَکْبَرَ وَلَدِ اَبِي مُوسَی
’’میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، اس کو کھجور کی گھٹی دی، اس کے لئے برکت کی دعا کی اور مجھے واپس دے دیا۔ یہ حضرت ابو موسی کا سب سے بڑا لڑکا تھا۔‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ کو گھٹی دینے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا ہے:
ذَهَبْتُ بِعْبْدِ اﷲِ بْنِ اَبِي طَلْحَةَ الْاَنْصَارِيِّ إِلَی رَسُولِ اﷲِ حِينَ وُلِدَ وَرَسُولُ اﷲِ فِي عَبَائَةٍ يَهْنَاُ بَعِيرًا لَهُ فَقَالَ هَلْ مَعَکَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ فَاَلْقَاهُنَّ فِي فِيهِ فَـلَاکَهُنَّ ثُمَّ فَغَرَ فَا الصَّبِيِّ فَمَجَّهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ الصَّبِيُّ يَتَلَمَّظُهُ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ حُبُّ الْاَنْصَارِ التَّمْرُ وَسَمَّاهُ عَبْدَ اﷲِ
’’جب ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے کہا ہاں! پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ کو پیش کیں۔ آپ نے وہ کھجوریں اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں، پھر آپ نے بچے کا منہ کھول کر اس میں ڈال دیا، اور بچہ اس کو چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انصار کو کھجوروں سے محبت ہے اور اس بچہ کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘
(یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں)
عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ رضی اﷲ عنهما اَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ بِمَکَّةَ قَالَتْ فَخَرَجْتُ وَاَنَا مُتِمٌّ فَاَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَنَزَلْتُ قُبَاءً فَوَلَدْتُ بِقُبَاءٍ ثُمَّ اَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اﷲِ فَوَضَعْتُهُ فِي حَجْرِهِ ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ فَمَضَغَهَا ثُمَّ تَفَلَ فِي فِيهِ فَکَانَ اَوَّلَ شَيْئٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيقُ رَسُولِ اﷲِ ثُمَّ حَنَّکَهُ بِالتَّمْرَةِ ثُمَّ دَعَا لَهُ فَبَرَّکَ عَلَيْهِ وَکَانَ اَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الْإِسْلَامِ فَفَرِحُوا بِهِ فَرَحًا شَدِيدًا لِاَنَّهُمْ قِيلَ لَهُمْ إِنَّ الْيَهُودَ قَدْ سَحَرَتْکُمْ فَلَا يُولَدُ لَکُمْ
’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہما فرماتی ہیں کہ مکہ مکرمہ کے اندر حضرت عبداﷲ بن زبیر ان کے شکم مبارک میں تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے ہجرت کی تو پورے دنوں سے تھی۔ پھر میں مدینہ منورہ پہنچ گئی اور قبا میں ٹھہری تو اس کی ولادت قبا میں ہوگئی۔ پھر میں اسے لے کر رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئی اور آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود میں دے دیا۔ پھر آپ نے کھجور منگوائی اور اسے چبا کر عبداﷲ کے منہ میں رکھ دی۔ تو پہلی چیز جو اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب دہن ہے۔ پھر آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے لئے دعا کرکے مبارک باد دی۔ دارالاسلام کے اندر پیدا ہونے والا یہ سب سے پہلا بچہ تھا۔ لہٰذا اس کی پیدائش پر مسلمانوں نے بڑی مسرت کا اظہار کیا، کیونکہ یہ افواہ عام پھیلی ہوئی تھی کہ یہودیوں نے جادو کر رکھا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا۔‘‘
درج بالا روایات سے معلوم ہوا کہ پیدائش کے بعد بچے کو غسل دینا، اس کے کانوں میں اذان و اقامت کہنا اور اسے گھٹی دینا سنت رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ نام رکھنے کے لیے ستارہ ملانا یا پتھر میچ کرنا توہم پرستی ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔