جواب:
میت کے کفن دفن پر اٹھنے والے اخراجات، قرض (اگر ہے تو اس) کی ادائیگی اور وصیت (اگر کوئی وصیت کی ہے تو) ایک تہائی (1/3) سے پوری کرنے کے بعد بچنے والی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔ بقول آپ کے ورثاء میں صرف دو بیٹیاں اور والد ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ج وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ط وَلِاَبَوَيْهِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَه وَلَدٌج فَاِنْ لَّمْ يَکُنْ لَّه وَلَدٌ وَّوَرِثَـه اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُج
’’پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا (1/2) ہے، اور مورث کے ماں باپ کے لیے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لیے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)‘‘۔
النساء، 4: 11
مذکورہ بالا آیت کریمہ کے مطابق کل ترکہ کا دو تہائی (2/3) حصہ دونوں بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم ہو جائے گا اور کل کا ہی چھٹا (1/6) حصہ والد کو ملے گا۔
یہاں پر مرحوم کے باپ اور بیٹیوں کو ان کے مقررہ حصے دینے کے بعد باقی بچنے والا مال مرحوم کے باپ کو بطور عصبہ ملے گا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ قَالَ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِاَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ
’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میراث اُس کے حق دار لوگوں کو پہنچا دو اور جو باقی بچے تو وہ سب سے قریبی مرد کے لیے ہے‘‘۔
بصورت مسئولہ دونوں بیٹیوں کو کل مال کا دو تہائی (2/3) حصہ ملے گا اور دادا کو چھٹے (1/6) حصے کے ساتھ باقی بچنے والا بھی سارا مال بطور عصبہ ملے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔