السلام علیکم! مفتی صاحب میرے درج ذیل سوالات کے بارے میں قرآن و احادیث کے کیا احکام ہیں:
(1) عمرہ ادا کرنے کے بعد بال منڈوانا فرض ہے یا واجب؟
(2) بال منڈوانے کی حکمت کیا ہے؟
(3) اگر کوئی بال نہیں منڈواتا تو کیا اس سے عمرہ کی تکمیل متاثر ہوتی ہے؟
(4) اگر اس میں کوئی چھوٹ ہے تو اس کا متبادل کیا ہے؟
جواب:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ اللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ اللّٰهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ
’’حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اور بال کٹوانے والوں پر؟ آپ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اور بال کٹوانے والوں پر؟ آپ نے فرمایا اور بال کٹوانے والوں پر‘‘۔
صحیح بخاری کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي نَافِعٌ رَحِمَ اﷲُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ قَالَ وَقَالَ عُبَيْدُ اﷲِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ وَقَالَ فِي الرَّابِعَةِ وَالْمُقَصِّرِينَ
’’حضرت لیث نے نافع سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک یا دو مرتبہ ’رَحِمَ اﷲُ الْمُحَلِّقِيْنَ‘ کہا۔ عبیداﷲ نے نافع سے روایت کی کہ آپ نے چوتھی مرتبہ ’وَالْمُقْصِرِيْنَ‘ کہا‘‘۔
ایک روایت میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ قَالُوا وَلِلْمُقَصِّرِينَ قَالَهَا ثَلَاثًا قَالَ وَلِلْمُقَصِّرِينَ
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! سر منڈانے والوں کی مغفرت فرما۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اور بال ترشوانے والوں کی۔ فرمایا: اے اللہ سر منڈانے والوں کی مغفرت فرما۔ لوگ عرض گزار ہوئے: اور بال ترشوانے والوں کی۔ یہ تین مرتبہ کہا اور پھر فرمایا: اور بال ترشوانے والوں کی بھی‘‘۔
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلق کروانے کے بارے میں مروی ہے:
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اﷲِ بْنَ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ حَلَقَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم وَطَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ
’’حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر منڈایا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے بھی جب کہ بعض نے ترشوائے‘‘۔
بخاري، الصحیح، 2: 617، رقم: 1642
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود حلق کروانا (سر کے بال منڈوانا) اور سر کے بال منڈوانے اور ترشوانے والوں کے لیے دعا کرنا ثابت ہے۔
حج و عمرہ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اداؤں کی یاد ہے۔ شیطان کو کنکر مارنا، حجرِ اسود کو بوسہ دینا، کہیں اکڑ کے چلنا اور کہیں رک جانا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، کبھی کنگھی کرنے کی ممانعت اور کبھی بال منڈوانا، کہیں مکھی و مچھر مارنے کی بھی ممانعت اور کہیں جانوروں کی قربانی دینا یہ اعمال اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی اداؤں کی یاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح حلق کروانا سنتِ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔