سوال نمبر:3604
السلام علیکم! کوئی شخص حلف اٹھائے کہ میں یہ ذمہ داری پوری کروں گا لیکن پھر وہ جان بوجھ کر پوری نہ کرئے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ شکریہ!
- سائل: طیب چوہدریمقام: رحیم یار خان
- تاریخ اشاعت: 05 مئی 2015ء
جواب:
قسم بسا اوقات لغو، بے فائدہ اور مہمل ہوتی ہے، اِس طرح کی قسموں پر دنیا اور آخرت
میں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔
اِس کے برعکس اگر قسم پختہ عزم کے ساتھ کھائی گئی ہے، یا اُس کے ذریعے کوئی عہد
و پیمان باندھا گیا ہے تو اس پر مواخذہ ہوگا اور توڑنے پر کفارہ لازم آئے گا۔ قسم کی
تین صورتیں ہیں:
- ایک قسم یہ ہے کہ ماضی میں رونما ہونے والے کسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے جان
بوجھ کر خلاف واقعہ کوئی بات کہی جائے اور یقین دلانے کے لیے اس پر قسم کھا لی
جائے، اسے ”یمینِ غموس“ کہتے ہیں۔ ایسی قسم کھانے والا سخت گناہِ کبیرہ کا مرتکب
ہے، اس کا کفارہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و اِستغفار اور معافی مانگنا ہے، اس کے سوا
کوئی کفارہ نہیں۔
- دوسری قسم وہ ہے جو کسی گزشتہ واقعہ پر کھائی جائے مگر قسم کھانے والا بےعلمی
کی وجہ خلاف واقعہ بات کہہ رہا ہو، اسے ”یمینِ لغو“ کہتے ہیں اور اس پر بھی کفارہ
نہیں۔
- تیسری قسم وہ ہے جو مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد کرتے ہوئے
کھائی جائے اسے ”یمینِ منعقدہ“ کہتے ہیں، ایسی قسم توڑنے پر کفارہ ادا کرنا لازم
ہے۔
اگر کوئی شخص کسی اجتماعی ذمہ داری پر فائز ہو اور اس نے اصول و ضوابط کے مطابق کام
کرنے کا حلف اٹھایا ہو، بعدازاں وہ اس حلف کو توڑ ڈالے تو ایسی صورت میں وہ کفارہ بھی
ادا کرے گا اور ذمہ داری ادا نہ کرنے پر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی۔
قسم کا کفارہ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
قسم توڑنے
کا کفارہ کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔