جواب:
جس حدیث مبارکہ کے بارے میں آپ نے دریافت کیا ہے اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
قال الربيع بن حبيب حدثني ابو عبيده عن جابر بن زيد عن انس بن مالک عن النبي قال: اطلبوا العلم ولو بالصين.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: علم حاصل کرو، گو تمہیں چین میں جانا پڑے‘‘
ربيع بن عمر الازدي البصري، المسند، 1: 29، رقم: 18، دار الحکمة مکتبة الإستقامة، بيروت،
حديث ابي العاتکة اطلبوا العلم ولو بالصين لايعرف ابو العاتکة ولا يدري من اين هو فليس لهذا الحديث اصل.
’’ابو عاتکہ کی حدیث ہے کہ علم طلب کرو، اگرچہ چین میں ہو۔ نہ ابو عاتکہ کا پتہ ہے نہ یہ کہ اس کا مقام کیا ہے؟ لہٰذا اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البزار، المسند، 1: 175، رقم: 95، بيروت: موسسة علوم القرآن
(اطلبوا العلم ولو بالصين فان طلب العلم فريضة علی کل مسلم) رواه البيهقي والخطيب وابن عبد البر والديلمي وغيرهم عن انس وهو ضيعف بل قال ابن حبان باطل وذکره ابن الجوزي في الموضوعات ونوزع بقول الحافظ المزي له طريق ربما يصل بمجموعها إلی الحسن ويقول الذهبي في تلخيص الوهيات روي من عدة طرق واهية وبعضها صالح ورواة ابو يعلی عن انس بلفظ [اطلبوا العلم ولو بالصين] فقط ورواه ابن عبد البر ايضا عن انس بسند فيه کذاب [اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة علی کل مسلم وإن الملائکة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب] وستاني الجملة الثانية بما فيها الطاء معزوة لإبن ماجه وغيره.
’’علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو کہ علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اسے بیہقی، الخطیب، ابن عبد البر، الدیلمی وغیرہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ یہ روایت ضعیف ہے بلکہ ابن حبان نے کہا یہ باطل ہے۔ ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ اور حافظ المزی کے اس قول میں تنازع کیا گیا ہے کہ اس روایت کے کئی طُرق ہیں جو بسا اوقات مجموعی طور پر حسن کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ الذہبی نے تلخیص الوہیات میں کہا یہ چند کمزور طُرق سے مروی ہے اور بعض طرق صالح (قابل اعتماد) میں۔ ابو یعلی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت فقط ان الفاظ سے بیان کی ہے [علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو] علامہ ابن عبد البر نے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جس سند کے ساتھ بیان کی اس میں جھوٹا راوی ہے۔ [علم حاصل کرو! خواہ چین میں ہو کہ علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے او بے شک فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، اس کے طلب علم سے رضا مند ہو کر] عنقریب دوسرا جملہ آئے گا جس میں اسکی نسبت ابن ماجہ وغیرہ کی طرف ہے۔‘‘
إسماعيل بن محمد العجلوني الجراحي، کشف الخفاء، 1: 154، رقم: 397، بيروت: موسسة الرسالة
دیگر کتب میں بھی اس کے بارے میں اسی طرح کی آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض اس کو من گھڑت کہتے ہیں اور بعض حدیث ضعیف کہتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔