جواب:
حافظ ابنِ حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
هو من لقي النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم مومنا وفات علیٰ الاسلام ولو تخللت ردّة في الاصح. والمراد باللقاء ما هو اعمّ من المجالس والمما شاة و وصول احدهما الیٰ الآخر و ان لم يکالمه و يدخل فيه روية احدهما الآخر سواء کان ذالک بنفسه او بغيره
صحابی وہ شخص ہوتا ہے جس نے حالتِ ایمان میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو، اگرچہ درمیان میں مرتد ہوگیا تھا (مگر وفات سے پہلے مسلمان ہوگیا)۔ یہاں ملاقات سے مراد ایسی ملاقات ہے جس میں باہم اکٹھے بیٹھنے یا چلنے پھرنے یا دونوں میں سے ایک کا دوسرے کی طرف جانا ثابت ہو، اگرچہ اس میں مکالمہ بھی نہ کیا گیا ہو۔ ملاقات میں ایک دوسرے کو بنفسہ یا بغیرہ دیکھنا بھی داخل ہے۔
عسقلانی، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر، 64، مکتبه التراث الاسلامی، قاهره، مصر
صحابی کی تعریف کرنے کے بعد امام ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ تابعی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وهو من لقی الصحابی کذلک ، وهذا متعلق باللقاء
اور تابعی وہ ہے جس نے (ملاقات درج بالا اوصاف کے ساتھ) صحابی سے ملاقات کی ہو، اس تعریف میں بھی ملاقات کا وہی مفہوم ہے (جو صحابی کی رسول اللہ کے ساتھ ملاقات کا تھا)۔
عسقلانی، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر: 67
امام جلال الدین سیوطی تابعی کی اصطلاح کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں کرتے ہیں:
هو من و ان لم لصحبه کما قيل في الصحابي، و عليه الحاکم. قال ابن الصحاح: و هو اقرب، قال المصنف: و هو الاظهر، قال العراقي: و عليه عمل الاکثرين من هل الحديث.
تابعی وہ شخص ہے جس نے صحابی سے ملاقات کی ہو اگرچہ اس نے (صحابی کی) صحبت اختیار نہ کی ہو، جیسا کہ صحابی کے بارے میں کہا گیا ہے۔ یہی امام مالک کا موقف ہے۔ ابنِ صلاح نے مذکورہ تعریف کو قریب ترین کہا ہے۔ مصنف (امام نووی) نے کہا: یہ واضح تعریف ہے۔ عراقی نے کہا ہے کہ اکثر محدثین نے اس تعریف کو قبول کیا ہے۔
سيوطي، تدريب الراوی في شرح تقريب النووی، 2: 234، مکتبة الرياض الحديث. سعودی عرب
شیخ محمد بن علوی المالکی تابعی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہیں کہ اکثر محدثین نے تابعی اس شخص کو کہا ہے جس نے حالتِ ایمان میں کسی صحابی سے ملاقات کی ہو اور اس کی وفات بھی ایمان پر ہی ہوئی ہو، اگرچہ اس نے صحابی کی صحبت اختیار کی اور نہ ہی ان سے روایت کی۔
محمد بن علوی، المنهل اللطيف فی اصول الحديث الشريف، 249، مطابع سحر، جدة، سعودی عرب
درج بالا اقوال سے تابعی کی جامع تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے:
حالتِ ایمان میں صحابئ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرنے اور پھر ایمان کی حالت میں وفات پانے والے شخص کو تابعی کہتے ہیں۔
مجنوں کا اصل نام قیس بن الملوح تھا۔ یہ 24 ہجری بمطابق 645 عیسوی کو پیدا ہوا۔ اپنے عصر کا معروف شاعر تھا۔ اس نے ایک مسلمان کے طور پر زندگی گزاری اور حالتِ ایمان میں ہی فوت ہوا۔
مؤرخین، محدثین اور اہلِ علم نے مجنوں کے احوال بیان کیے ہیں۔ بعض مؤرخین نے اس کے حج پر جانے اور حرمین میں اس کے قیام کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ چند کتب کے حوالے درج ذیل ہیں:
مذکورہ کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قیس (مجنوں) کا دور اولین صدی ہجری ہے جوکہ صحابہ کا زمانہ ہے۔ قیس چونکہ مسلمان تھا اور حالتِ ایمان میں ہی فوت ہوا ہے، اگر اس کی کسی صحابی سے ملاقات ہوئی ہے تو وہ طبقہ تابعین میں شمار ہوگا۔ ہماری تحقیق کے مطابق قیس (مجنوں) کا تابعی ہونا قرینِ قیاس ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔