جواب:
اللہ رب العزت نے انسانیت کی رشد وہدایت کا جو الوہی نظام بنایا ہے، اس کے مطابق انسانوں ہی میں سے بعض لوگوں کو منتخب اور چن کر امام وپیشوا بنا دیا جاتا ہے جو انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً یهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا.
’’اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبر کرتے رہے کچھ امام و پیشوا بنا دیئے‘‘۔
السجده : 24
اس ضابطہ خداوندی کے مطابق حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک انبیاء کرام اور رسل عظام کے ذریعے امامت و پیشوائی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا، لہذا قیامت تک اور بعد از قیامت نبوت و رسالت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد کو اللہ تعالی نے یوں بیان فرمایا:
هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِینِ الْحَقِّ لِیظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے‘‘۔
التوبة : 33
اس آیت مبارکہ میں صراحتا دو چیزوں کا ذکر کیا ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کو اللہ تعالی نے جامع صفات وکمالات بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں دین کے تمام پہلو اور تمام معاملات پورے ہوتے رہے، بعثت کا مقصد مکمل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد یہ عظیم کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو منتقل ہوا۔ اس لئے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی ہرطرح کی حفاظت کا قیامت تک وعدہ لے رکھا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ
یہ منشاء خداوندی ہے کہ دین اسلام قیامت تک غالب ومستحکم ہی رہے اور جاری وساری بھی۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد جب یہ فریضہ امت مصطفوی کو منتقل ہوا۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذمہ داری خود امت کے کندھوں پر رکھ دی۔ ارشاد فرمایا:
عَنْ اَبِی هُرَیرَةَ فِیمَا اَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اﷲِ قَالَ إِنَّ اﷲَ یبْعَثُ لِهَذِهِ الْاُمَّةِ عَلَی رَاْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی اس امت کے لئے ہر سو سال کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے لئے دین کی تجدید کرے‘‘۔
ابی داود، السنن، 4: 109، رقم: 4691، دار الفکر
عہدِ نبوی کا فیض تھا امراء‘ سلاطین اور صالح حکمرانوں کے ذریعے امرِ سیاسی کی حفاظت کا کام بھی ہوتا رہا اور علماء وفقہاء اور صوفیاء کے ذریعے دینی قدریں بھی پروان چڑھتی رہیں۔
یہ امر واقع ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا چلا جاتا ہے، احوال زمانہ کی وجہ سے ہر کام میں بگاڑ بھی پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ زمانہ جیسے جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے زمانے سے دور ہوتا چلا گیا اسی قدر امت زوال آشنا ہوتی چلی گئی۔ امت کے احوال بدل گئے، بگاڑ اور تباہی آئی، دین کی قدریں پامال ہوئیں، لوگ دین سے دور ہوتے گئے اور دین پر عمل ترک ہونے لگا۔ امت مسلمہ کا اس طرح زوال آشنا ہونا اور اس میں بگاڑ کا آنا اللہ رب العزت کے علم میں تھا۔ چنانچہ اس علیم وقدیر ذات نے اس بگاڑ کی اصلاح اور زوال کو پھر سے عروج میں بدلنے کے لئے علاج بھی امت مصطفوی کو عطا کیا اور درج ذیل تین طبقات امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کئے:
مصلحین : اصلاح کرنے والے
مجتہدین : اجتہاد کرنے والے
مجددین : تجدید دین کرنے والے
اصلاح احوال امت کو سنوارنے کیلئے مصلحین و مجتہدین کو ذمہ داری سونپی۔۔۔ اور امت کا زوال ختم کرنے کیلئے مجدد دین کا طبقہ بنایا۔
ان تینوں طبقوں کے سپرد جدا جدا کام کئے۔۔۔ ان کے دائرہ ہائے کار بھی جدا جدا رکھے۔ ان کے کام کا رنگ و اسلوب بھی جدا جدا رکھا۔۔۔ ان کے احوال ومراتب بھی الگ الگ رکھے۔۔۔ ان کے کام کے اثرات کو بھی جدا جدا رکھا۔۔۔ ان کے درجات بھی مختلف رکھے۔
یہ لوگ امر سیاسی کی حفاظت کے لئے بھی آئے اور امر باطنی کی حفاظت کے لئے بھی آئے۔ اگر زوالِ امت امر مذہبی، امر باطنی اور اعمال واحکام میں آیا تو اس کی اصلاح کے لئے مصلح عطا کیا۔۔۔ اعمال و احکام کی اصلاح اور جدید مسائل کے حل کے لئے مجتہد عطا کیا۔۔۔ اور امر دین نے تجدید کا تقاضا کیا تو مجدد پیدا فرما دیا۔۔۔ گویا ہر ہر شعبہ دین کے اندر مصلح، مجتہد اور مجدد حسب ضرورت امت کو عطا کیا۔
اگر جماعت مجددین کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ پاک نے ہر مجدد کو جدا جدا صلاحیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔ بعض کو یک جہتی‘ بعض کو دوجہتی بعض کو سہ جہتی اور بعض کو ہمہ جہتی مجدد بنایا‘ بعض مجددین کو کسی ایک وصف اور فن میں باکمال کردیا اور اس مجدد نے اپنے دور کے اس فتنے کا مقابلہ کیا۔ کسی دوسرے دور میں کوئی نیا فتنہ اٹھا اس نئے فتنے کو ختم کرنے کے لئے کسی دوسرے مجدد کو بھیج دیا۔ جیسے فتنہ قادیانیت ومرزائیت کے خاتمے کے لئے حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجا‘ جنہوں نے ہر سطح پر اس کا مقابلہ کیا اور ’’سیف چشتیائی‘‘ لکھ کر اس فتنے کا سر کچل کر رکھ دیا۔ گستاخانہ فتنوں کی روک تھام کے لیے اللہ تعالی نے اعلی حضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجا اور آپ نے اس فتنے کا سدباب کیا۔ برصغیر پاک وہند میں سیاسی و فکری زوال آیا تو حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا کیا جنہوں نے امت کے عروق مردہ میں روح پھونکی اور سیاسی زوال کو ختم کرنے کے لئے قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔
بعض مجدد ہمہ جہت شان کے مالک ہوتے ہیں وہ بیک وقت سیاسی زوال‘ دینی زوال اور تصوف و روحانیت کے زوال کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور ان کی سعی وکاوش سے اللہ رب العزت ہمہ جہت، نوعیت کی تبدیلی امت کا مقدر کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں ماضی قریب میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان کے دور میں ایک طرف اکبری الحاد اور اس کا بنایا ہوا دین الہی تھا، اور اس دوسری طرف درباری علماء کا کردار تھا جو دینِ مبین کے احکامات کو پس پشت ڈال چکے تھے اور طریقت کو شریعت سے جدا کیا جا رہا تھا۔ شریعت کا میلان ختم کر کے لوگوں کے عقائد کو بدلا جا رہا تھا۔ گویا ہمہ جہت نوعیت کا زوال تھا۔ اس زوال کے خاتمے کے لئے اللہ رب العزت نے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا فرمایا۔ آپ کی محنت اور کوشش سے حالات بدلے‘ احوال زمانہ بدلے‘ امر سیاست میں تبدیلی ہوئی‘ لوگوں کو درست عقائد پر گامزن کیا‘ امر طریقت اخلاص کی صحیح راہ پر چل پڑا۔
مجدد کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایسا علم حاصل کرتا ہے جس سے اسلام کو زندہ کرتا ہے۔ اس کے علم میں اسلاف کے علم کی جھلک بھی موجود ہوتی ہے، مگر اس کا امتیاز دور جدید کے مطابق اس کا تخلیقی علم ہو تا ہے۔ وہ اپنے تخلیقی علم کے ذریعے احیاء وتجدید کا کام کرتا ہے اور اپنے دور کے مسائل اور فتنوں کا سدباب کر دیتا ہے۔
مجدد کا علم قدیم وجدید کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ مجدد کی بنیادی ذمہ داری اصل بنیاد پر قائم رہتے ہوئے حال و مستقبل میں پیش آمدہ مسائل کا حل دینا ہے۔ دین میں کوئی نئی بات داخل نہیں کرتا نہ ہی ایسے اعمال بجا لاتا ہے جس سے اسلاف کی قائم کردہ عمارتوں کو منہدم کر دے‘ کتاب وسنت سے منحرف ہو جائے‘ شریعت کے وضع کردہ اصول وضوابط سے باہر نکل جائے، بلکہ مجدد جو کچھ بھی کرتا ہے اسلاف کی پیروی میں کرتاہے۔ ان کے کام کو موثر کرتا ہے‘ ان کی جدوجہد میں مزید تاثیر لاتا ہے۔ اُسے علوم عصریہ اور قدیمہ پر کامل دسترس عطا کی جاتی ہے۔ قرآن وسنت کی تعبیر وتفسیر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کرنا اس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔
مجدد کا کردار اپنے زمانے اور معاشرے میں مثالی ہوتا ہے اور اس کا کردار‘ کردار نبوت کا عکس ہوتا ہے۔ نگاہ خداوندی اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اسے کردار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ملتا ہے۔ مجدد اپنی صلاحیت‘ قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ہر دنیاوی عہدہ اور منصب کا اہل ہوتا ہے مگر اس کے دل میں کسی عہدہ ومنصب‘ جاہ وحشمت اور دنیاوی مال ودولت کا کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ اگر دنیا جہاں کی دولت لا کر اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی جائے تو وہ اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ عالمِ اسلام کے چند مجددین کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
ظاہر ہے کہ مجددین کرام کی یہ فہرست بہت مختصر ہے۔ بے شمار حضرات ایسے ہونگے جو فی الواقع مجددین میں شامل ہیں، مگر ہماری معلومات ناقص ہیں۔ اللہ رب العزت تمام اہل علم و تحقیق، جہد و جہاد کو مشکور فرمائے، ان کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی دینی و ملی کاوشوں کے صدقہ ہماری مغفرت فرمائے اور دین کی خدمت کی توفیق بخشے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔