جواب:
دینِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جھوٹ بولنے سے روکا اور سچ کہنے کی تاکید کی ہے۔ جس طرح قولًا جھوٹ مذموم ہے اسی طرح عملی جھوٹ کی بھی ممانعت ہے، جس طرح قول کی سچائی مطلوب ہے اسی طرح عمل کی سچائی بھی مطلوب ہے۔ وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے، اور ایفائے عہد عملی صدق کہلاتا ہے۔ اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً
عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔
بنی اسرائيل، 17: 34
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعد ہ کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں
مومنون، 23: 8
خود اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کا بارہا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی وعدہ خلافی بتایا۔ ارشاد مبارکہ ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
صحيح مسلم، 1، رقم الحديث: 210
نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق قرار دیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم بات ہے۔ یہ نیت کی بد دیانتی کا اور جھوٹی نیت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ آدمی گناہگار اس وقت ہے جب وعدہ یا عہد کرتے وقت اس کی نیت ہی وفا کی نہ ہو یا بعد میں وفا کی نیت پر قائم نہ رہے۔ اگر نیت وعدہ وفا کرنے کی ہے مگر حالات کے ہاتھوں بےاختیار ہو نے کی وجہ سے وعدہ وفا نہ کر سکا تو اس پر مؤاخذہ نہیں۔ وعدہ خلافی ایک اخلاقی جرم ہے اس پر کوئی سزا حداً بیان نہیں ہوئی، تاہم معاملے کی نوعیت کے مطابق قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے اور تعزیراً سزا بھی ہو سکتی ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہے اور پھر پورا نہیں کرپاتا تو یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، مالک کی مرضی معاف کرے یا نہ کرے۔
منگیتر کے ساتھ شادی نہ کرنے کی قسم کھا کر پھر اسی سے شادی کر کے مذکورہ شخص نے قسم توڑی ہے، اس لیے اس پر قسم کا کفارہ لازم ہے۔ قسم کا کفارہ جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ جب وہ شخص ایک لڑکی سے شادی نہ کرنے کی قسمیں کھا رہا ہے، پھر اسی شخص کے ساتھ شادی کر دینا لڑکی کی زندگی تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ لڑکی اور والدین کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ کسی لڑکی کو زبردستی کسی ایسے شخص کے پلے باندھ دینا بھی نادانی ہے۔ کیا خبر وہ زندگی بھر اس کے ساتھ کیا رویہ رکھے؟ اسلام، عرف اور عقل ایسے رشتوں کی قطعاً اجازت نہیں دیتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔