زید اور اسکی بیوی نے خفیہ کورٹ میرج کر رکھی ہے، کیو نکہ لڑکی کے گھر والے ان کی شادی کے خلاف تھے۔ نکاح کے بعد دونوں اپنے اپنے گھر آگئے تاکہ گھر والوں کو منا کر ان کی بھی عزت رکھ لیں۔ مگر بات اس کے بالکل برعکس ہوئی، لڑکی کے گھر میں پتہ لگتے ہی زید کا اس کے ساتھ چھ (6) مہینے تک رابطہ ختم ہوگیا اور لڑکی والے زید کو دھمکیاں دینے لگے کہ طلاق دو۔ لیکن لڑکی نے زید کے ساتھ رابطہ کر کے بتایا کہ وہ زید کے ساتھ ہے اور اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لڑکی کے گھر والے اس کو ڈرا دھمکا کر طلاق دلوانے کے لئے لائے اور آکر زید کو مجبور کیا اور زبردستی زید سے اتنا کہلوالیا کہ ’’میری طرف سے طلاق ہے‘‘۔ طلاق دینے کی زید کی نیّت نہ تھی۔ اس صورتحال سے نکلنے اور جان بچانے کے لئے زید نے اس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا۔ اب آپ اسلام کی روشنی میں اس کا حل بتایے سر ؟
زید اور اس کی بیوی ابھی بھی رابطے میں ہیں، اور لڑکی یہی کہتی ہے کہ میں اس طلاق کو نہیں مانتی، یہ جبر ہے اور اسلام میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے، مگر زید نے کچھ فتاویٰ جات پڑھے ہیں جن میں نیّت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ مگر زید نے پڑھ رکھا ہے کچھ حالات میں طلاق واقع نہیں ہوتی جیسے:
غصّے میں دی جانے والی طلاق
مجبوری میں دی جانے والی طلاق
جبر میں لی جانے والی طلاق
بنا نیّت کے دی جانے والی طلاق
یہ سب علامت زید کی طلاق کے وقت موجود تھیں۔ براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
جواب:
طلاق لیتے وقت اگر لڑکی کے گھر والے زید کو جان سے مار دینے پر قادر تھے اور انہوں نے مارپیٹ کر کے یا اذیت دیکر زید سے طلاق کے الفاظ کہلوائے ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ زید کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ زید اور اس کی بیوی بطور میاں بیوی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا زبردستی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
دوسری صورت یہ ہے کہ جبر و اکراہ کی نوعیت صرف باتوں کی حد تک تھی یعنی نہ تو وہ جان سے مار دینے پر قادر تھے اور نہ ہی انہوں کوئی مارپیٹ کی، بس تھوڑا دھمکا کر زید سے ایک بار کہلوایا کہ ’’میری طرف سے طلاق ہے‘‘ تو ایک طلاق واقع ہو گئی ہے۔ زید دورانِ عدت رجوع کر سکتا ہے یا پھر عدت کے بعد دوبارہ نکاح کر سکتا ہے۔
اگر اسی دوسری صورت میں زید نے تین بار طلاق دی ہے تو پھر تین ہی واقع ہو گئی ہیں۔
یہ فیصلہ زید نے خود کرنا ہے کہ اس وقت جبر و اکراہ کی کیفیت کیا تھی، اسی سے طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔