جواب:
اسلام ایک صاف ستھرا اور نفیس دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو بھی نظافت ونفاست کی تعلیم دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ.
بے شک اﷲ بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
البقره، 2: 222
ایک اور مقام پر فرمایا:
مَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيَجْعَلَ عَلَيْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰـکِنْ يُرِيْدُ لِيُطَهِّرَکُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَه عَلَيْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
المائدة، 5: 6
اسلام میں صفائی و ستھرائی کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے:
عَنْ اَبِي مَالِکٍ الْاَشْعَرِيِّ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ.
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اس کام سے روکا جو نظافت و نفاست کے خلاف ہو۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
اَنَّ النَّبِيَّ قَالَ فِي غَزْوَة خَيْبَرَ مَنْ اَکَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة يَعْنِي الثُّومَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا.
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دوران فرمایا کہ جو اس درخت یعنی لہسن سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
امام مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے:
حَتَّی يَذْهَبَ رِيحُهَا يَعْنِي الثُّومَ.
جب تک اس کے منہ سے بدبو نہ چلی جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُو عَاصِمٍ قَالَ اَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ اَخْبَرَنِي عَطَاءٌ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ مَنْ اَکَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة يُرِيدُ الثُّومَ فَلَا يَغْشَانَا فِي مَسَاجِدِنَا.
عبداﷲ بن محمد ابو عاصم سے، وہ ابن جُریح سے، وہ عطائی سے اور وہ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس درخت میں سے کھایا، اس سے مراد لہسن ہے، وہ ہم سے ہماری مسجد میں نہ ملے۔
قُلْتُ مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مَا اُرَهُ يَعْنِي إِلَّا نِيئَهُ وَقَالَ مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلَّا نَتْنَهُ.
میں (عطائی) عرض گزار ہوا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا کہ میرے خیال میں کچا لہسن مراد ہے۔ مخلد بن یزید نے ابن جُریح سے روایت کی کہ اس کی بو مراد ہے۔
بخاري، الصحيح، 1: 292، رقم: 816
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کافی طویل ہے جس میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی باتیں بتائیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
يُهَا النَّاسُ تَاْکُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لَا اَرَهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الْبَصَلَ وَالثُّومَ لَقَدْ رَيْتُ رَسُولَ اﷲِ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ اَمَرَ بِهِ فَاُخْرِجَ إِلَی الْبَقِيعِ فَمَنْ اَکَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا.
اے لوگو! تم لہسن اور پیاز کے درختوں سے کھاتے ہو، حالانکہ میں ان کو خبیث سمجھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جس شخص کے منہ سے ان کی بدبو آتی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے حکم دیتے کہ وہ مسجد سے نکل کر بقیع کے قبرستان کی طرف چلا جائے۔ لہٰذا جو شخص انہیں کھانا چاہے وہ انہیں پکا کر ان کی بو ختم کر دے۔
مسلم، الصحيح، 1: 396، رقم: 567
عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَاَلَ رَجُلٌ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ مَا سَمِعْتَ نَبِيَّ اﷲ يَقُولُ فِي الثُّومِ فَقَالَ قَالَ النَّبِيُّ مَنْ اَکَلَ مِنْ هٰذِهِ الشَّجَرَة فَلَا يَقْرَبْنَا اَوْ لَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا.
حضرت عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے لہسن کے متعلق نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سنا ہے؟ آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بتایا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اس درخت سے کھائے وہ ہمارے نزدیک نہ آئے نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔
بخاري، الصحيح، 1: 293، رقم: 818
عَنْ اَبِي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ مَنْ اَکَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَة فَـلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا وَلَا يُوْذِيَنَّا بِرِيحِ الثُّومِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو اس درخت سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب آئے اور نہ ہمیں لہسن کی بو سے تکلیف دے۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ اَکْلِ الْبَصَلِ وَالْکُرَّاثِ فَغَلَبَتْنَا الْحَاجَة فَاَکَلْنَا مِنْهَا فَقَالَ مَنْ اَکَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَة الْمُنْتِنَة فَـلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا فَإِنَّ الْمَلَائِکَة تَاَذَّی مِمَّا يَتَاَذَّی مِنْهُ الْإِنْسُ.
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا۔ ہم نے ضرورت سے مغلوب ہو کر انہیں کھا لیا تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ان بدبودار درختوں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو بھی ان چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے جن سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
معلوم ہوا انسانوں کی طرح فرشتوں کو بھی بدبو سے تکلیف ہوتی ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنے منہ اور باقی جسم کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا وہ انسانوں کو تو تکلیف دینےکے ساتھ ساتھ فرشتوں کو بھی تکلیف دیتا ہے۔ سیدنا علی علیہ السلام سے روایت ہے:
إِنَّ اَفْوَهَکُمْ طُرُقٌ لِلْقُرْانِ فَطَيِّبُوهَا بِالسِّوَاکِ.
تمہارے منہ قرآن کے راستے ہیں انہیں مسواک سے صاف کیا کرو۔
ابن ماجه، السنن، 1: 106، رقم: 291، دار الفکر بيروت
پہلے بھی متعدد بار اس طرح کے سوالات پوچھے گئے ہیں کہ نسوار رکھنا جائز ہے؟ سگریٹ پینا کیسا ہے؟ پان کھانا جائز ہے یانہیں؟ ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یانہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اب آپ نے پوچھا نسوار منہ میں رکھ کر تلاوت یا نعت سننا جائز ہے؟ اس لئے وضاحت کردی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گندگی اور بو سے کس قدر نفرت کی ہے؟ حلال چیز، جسے کھانے سے منہ میں بو پیدا ہو، اسے کھا کر اپنی عبادت گاہ کی طرف آنے سے منع فرما دیا جبکہ لہسن یا پیاز صحت کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہیں۔ لیکن جو چیزیں جان کے لیے خطرہ ثابت ہوں ان کے استعمال کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ سگریٹ کے ہر ڈبے پر لکھا ہوتا ہے ’’تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے‘‘ اور جس مستند ڈاکٹر سے بھی پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ پان، سگریٹ، نسوار اور ایسی دیگر اشیاء منہ، گلے، پھیپھڑوں، سینے وغیرہ کا کینسراور ٹی بی جیسی مہلک بیماروں کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا انہی وجوہات کی بنیاد پر ہم ان چیزوں کو ناجائز قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کا استعمال خود کشی کے مترادف ہے۔
جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:
وَلَا تُلْقُوْا بِيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ.
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بے شک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
البقرة، 2: 195
وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔
النساء، 4: 29
اب آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں کہ نسوار منہ میں رکھ کر قرآن پاک کی تلاوت یا نعت سن سکتے ہیں کہ نہیں؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔ کیونکہ جب نیکی کا کام کرنا ہے تو ساتھ ساتھ یہ گندگی منہ میں ضرور رکھنی ہے؟ اﷲ تعالیٰ ہمیں اسلام کی منشاء کے مطابق صاف ستھرا رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔