جواب:
نکاح کا خطبہ شرعی طور پر مسنون ہے۔ اس سے مقصود خیر و برکت کا حصول اور حقوقِ زوجین سے متعلق وعظ و نصیحت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ خطبہ نکاح بلاوجہ چھوڑا نہ جائے، لیکن بغیر خطبہ کے بھی نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ نکاح کے انعقاد کے لیے لڑکی اور لڑکے کے علاوہ دو عینی گواہوں کی موجودگی شرط ہے۔ صاحبِ ہدایہ نے اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے کہ:
لا ینعقد نکاح المسلمین الا بحضور شاهدین حرین عاقلین بالغین مسلیمین رجلین او رجل و امراتین.
دو مسلمانوں (لڑکے اور لڑکی) کا نکاح دو آزاد، عاقل، بالغ اور مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی یا شہادت کے بغیر منعقد نہیں ہوتا۔
مرغینانی، الهدایه، 1: 190، المکتبة الاسلامیة
اگر لڑکا یا لڑکی دونوں میں سے کوئی ایک نکاح کی مجلس (تقریب) میں خود موجود نہ ہو تو اس کے وکیل اور اس وکیل کی وکالت پر دو گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ ان تین لوگوں کے علاوہ دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں بطور گواہانِ نکاح کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے بعد نکاح قائم ہوتا ہے۔ فریقِ ثانی بھی اپنا وکیل اور وکیل بننے کے دوگواہ مزید مقرر کر سکتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی خود موجود ہونے کی صورت میں بھی اپنا وکیل مقرر کر سکتے ہیں۔ بہرحال دو گواہوں کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
بصورت مسئلہ عورت کا صرف یہ کہہ دینا کہ ’’فلاں شخص میرا شوہر ہے‘‘ اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، جب تک لڑکا یا اس کا وکیل قبول نہ کرے۔ کیونکہ نکاح کے انعقاد کے لیے ایک فریق کا ایجاب اور دوسرے کا قبول کرنا ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔