جواب:
سودی لین دین قطعی طور پر حرام ہے اور اسے حلال سمجھنا ایمان سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ غیر مسلم ممالک میں بطور اقلیت رہنے والے مسلمانوں کی پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے، کیونکہ غیر مسلم ممالک میں سود کی حرمت کے احکام اُسی طرح لاگو نہیں ہوسکتے جس طرح وہ اسلامی ممالک میں ہوتے ہیں۔ حکم کا نافذ ہونا یا نہ ہونا منصوص نہیں بلکہ اجتہادی نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لئے اس حوالے سے کسی فقہ کی کتاب میں احکام نہیں ملتے۔ جس کا سبب یہ ہے کہ اسلامی دورِ عروج میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں سودی نظام معیشت والے ممالک میں جا کر نہیں بسے تھے، بلکہ غیر مسلم لوگ مسلمان ملکوں میں آکر بسا کرتے تھے۔ لیکن اب دورِ زوال کی بنا پر پچھلی ایک صدی سے بہت سے مسلمانوں نے غیر مسلم ممالک کی طرف امیگریشن شروع کی، بعد ازاں اُنہیں وہاں کے شہری حقوق بھی ملنے لگے۔ اب وہ غیر اسلامی اور سودی نظام معیشت والے ممالک میں بستے ہیں، جہاں بلا سود اکاؤنٹس موجود نہیں ہیں۔ ایسے ممالک میں اگر مسلمان بنک اکاؤنٹس کی سہولت سے محروم رہیں گے تو وہ کاروبار بھی نہیں کر سکیں گے اور دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مغربی دُنیا کی غیر مسلم حکومتوں میں جا بسنے والے مسلمان تنخواہ، سوشل سیکیورٹی، چائلڈ بینفٹ، میڈیکل بینفٹ اور پنشن وغیرہ جس خزانے سے لے رہے ہیں اس میں یقینا شراب اور خنزیر کا سیل ٹیکس اور سود کا پیسہ بھی شامل ہوتا ہے اور وہاں کی حکومتیں انہی رقوم سے اپنے شہریوں کو سوشل سیکیورٹی سمیت تمام فوائد دے رہی ہیں۔ اس لئے وہاں سود سے بچنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔
شریعت کا بھی یہ قاعدہ ہے کہ جب مسلمان کسی ایسے غیر مسلم ملک میں رہ رہے ہوں جہاں اسلام کا نظام موجود نہ ہو اور عالمِ کفر کی حکومت اور نظام چل رہا ہو تو وہاں جب مسلمان ایک طرف اپنے معاش، رہائش اور کاروبار کے لئے غیر مسلم حکومت کو ٹیکس دے رہا ہے تو دوسری طرف بطور شہری اُن کے نظام کی تمام سہولیات سے فائدہ لے سکتا ہے۔ مسلمان اقلیت میں ہیں اور قانون اُن کے ہاتھ میں نہیں کہ وہ سودی نظام کو ختم کر سکیں، اس لیے وہاں بسنے والے مسلمانوں پر بعض احکام کا اطلاق نہیں ہو گا۔ بینک اکاؤنٹس کے بغیر وہاں خرید و فروخت، تنخواہ کی وصولی اور کاروبار ممکن نہیں ہے جبکہ بینکوں کا تمام نظام سودی ہے۔ اس لئے اِستثنائی حالت کی بنا پر مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے اور نظام ہاتھ میں نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر بعض احکام لاگو نہیں ہوں گے۔ جیسے خنزیر، مردار اور شراب حرام ہیں مگر اِستثنائی صورت میں اسلام کا قانون مختلف ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْه
پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔
البقرۃ، 2: 173
حلال کی عدم دستیابی کی صورت میں حرام کے استعمال کی اجازت بھی دی جا رہی ہے۔ اس استثنائی حکم سے حرام حلال نہیں ہو جاتا، مگر اس کے استعمال کی اجازت مل جاتی ہے۔ یعنی سود حلال نہیں ہو جاتا، بلکہ صورتحال تبدیل ہونے اور اِضطراری حالت ہونے سے کچھ مستثنیات مل جاتی ہیں یعنی جب بلا سود نظام مہیا ہو جائے تب یہ استثنائی جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اگر سودی اکاؤنٹس کی نفی کر دی جائے تو مغربی دنیا میں کوئی بھی مسلمان بینک کی سہولت حاصل نہیں کر سکتا۔ جبکہ وہاں تنخواہ کی وصولی، کاروبار اور رہائش کے لئے قرض کا حصول وغیرہ سب اسی سودی نظام کے تحت ہے۔ اگر وہاں مسلمان بینکوں سے بائیکاٹ کردیں تو کوئی مسلمان تجارت نہیں کر سکے گا، فیکٹری نہیں لگا سکے گا، کوئی بھی کاروبار ناممکن ہو جائے گا، مسلمان صرف مزدوری کے لیے رہ جائیں گے، ان کی معیشت غیر مستحکم ہو جائے گی، جس کی بنا پر وہاں پوری مسلم سوسائٹی اُکھڑ جائے گی اور مسلمان بھیک مانگتے پھریں گے۔ یعنی اس نظام میں زندہ رہنا بھی مشکل ہو جائے گا یوں مغربی دُنیا میں تیزی سے پھیلتا ہوا اسلام بھی سکڑنے لگے گا اور وہاں پوری کی پوری مسلم سوسائٹی کی بقا ختم ہو جائے گی۔ اس لئے آج غیر اسلامی سوسائٹی میں مسلمانوں کی بقا اور قیام بچانا استثنائی مسئلہ ہے۔
لہٰذا اسی اجتماعی اضطرار کے پیش نظر مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے جہاں بلاسود اکاؤنٹس کی سہولت موجود نہ ہو، وہاں اکاؤنٹس سے ملنے والی اضافی رقم آپ خود بھی استعمال کر سکتے ہیں اور کسی ویلفیئر سوسائٹی کو بھی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ وصول نہیں کریں گے تو وہ کسی غیر مسلم ویلفیئر سوسائٹی کو دے دی جائے گی یا بینک اپنے مصرف میں لے آئے گا۔ اس لیے وہ رقم مسلمانوں کے کام آجائے تو زیادہ بہتر ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔