خواتین کو شرعی تعلیمات کیسے سکھائی جائیں؟


سوال نمبر:3442

السلام علیکم! خواتین سے متعلق جملہ احادیث یا مسائل صحابہ اکرام یا آئمہ اکرام نے زیادہ تر حضرت عائشہ صدیقہ (یعنی کہ عورت سے) سے حاصل کیے۔ اُس دور میں یا اُن حالات میں اسکی ضرورت تھی کہ ایک عورت ہی ایسے مسائل کی وضاحت کرسکتی ہے اور وہ بھی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیادہ قریب رہی۔

موجودہ دور یا حالات میں جبکہ مدرسہ، سکول، کالج کے علاوہ متعلقہ کتابیں بھی موجود ہیں، کیا کوئی شخص اپنی بیٹی، بھانجی، بھتیجی، بیوی، کزن یا والدہ کو خواتین سے متعلق جملہ مسائل کا درس یا تعلیمات دے سکتا ہے؟ دراصل آج کل شرم و حیا کے حجاب میں بہت کنارہ کشی کی جارہی ہے۔ خواتین اپنے باپ یا بھائی سے ایسے مسائل پوچھتے ہوئے شرماتی ہیں۔ اگر پوچھ بھی لیں تو کہا جاتا ہے یہ لڑکی بےشرم یا بےحیا ہوگئی ہے۔ اگر باپ یا بھائی خود سے بتائیے تو بھی شرم کا پہلو سامنے آجاتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے ماں یا بڑی بہن یا استانی ہی یہ مسائل بتائے۔ مگر پھر بھی میرے سوال کے مطابق پوچھ گوچھ، درس یا تعلیمات کیسے دینی چاہیے؟

  • سائل: لیاقت علی اعوانمقام: اوکاڑہ
  • تاریخ اشاعت: 13 جنوری 2015ء

زمرہ: حقوق نسواں

جواب:

عن انس بن مالک قال قال رسولُ الله صلیٰ الله علیه وآله وسلم: طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ابنِ ماجه، السنن، 1: 81، رقم: 224، دارالفکر بیروت

مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہر مسلمان کے لیے حصولِ علم فرض قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ ہر مسلمان میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرے یا تمام دینی علوم اور سائنسی علوم کا ماہر بنے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان بنیادی ضروریاتِ زندگی سے نمٹنے کے لیے علم حاصل کرے۔ مسلمان ہونے کے ناطے زندگی میں اس نے نماز پڑھنی ہے تو اس کے لیے وضو، غسل اور تیمم وغیرہ کے بنیادی مسائل جاننا فرض ہے۔ معاملاتِ زندگی کو چلانے کے لیے شادی، نکاح، طلاق اور ازدواجی زندگی کے مسائل کو جاننا لازمی ٹھہرا۔ خواتین کے لیے حیض، نفاس اور استحاضہ سے متعلق معلومات کا ہونا فرض ہے۔ لہٰذا بطورِ مسلم زندگی کے بنیادی مسائل کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ علم کیسے حاصل کیا جائے؟ اس کے کئی انداز ہو سکتے ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں یعنی سکولز اور کالجز کے نصاب میں بنیادی تعلیمات شامل کی جائیں۔ مساجد اور گھروں میں ایسی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جس میں ضروری اور بنیادی مسائل سکھائی جائیں۔ گھروں میں خواتین جمع ہوکر نمازِ تسبیح پرھتی ہیں یا دیگر مواقع پر محافل کا انعقاد ہوتا ہے وہاں صرف تلاوت و نعت اور ذکر اذکار ہی کافی نہیں، بلکہ کسی عالمہ فاضلہ بلاکر بنیادی دینی مسائل کا بیان بھی ضروری ہے۔ رمضان میں ترویح کے بعد یا دیگر مواقع پر اس طرح کے مسائل بیان کیے جائیں۔ اس کے علاوہ آسان اردو میں فقہ کی کتب عام دستیاب ہیں، وہ گھروں میں ہونی چاہئیں تاکہ بچے خود پڑھ سکیں۔ مختلف ویب سائٹس جیسے ’’فتویٰ آن لائن‘‘ سوالات کے جوابات دیتی ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

والدین کا فریضہ ہے کہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ بچے زندگی کے مختلف مسائل ان سے پوچھیں اور ان سے سوال کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔ والدین گھر کا ماحول ایسا بنائیں کہ بچے پیش آمدہ مسائل کا حل والدین سے پوچھ سکیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی