جواب:
طلوع آفتاب (سورج نکلتے وقت)، وقت استواء ( جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے) اور غروب آفتاب (سورج ڈوبتے وقت) نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ مُوسَی بْنِ عُلَيٍّ عَنْ اَبِیهِ قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ یَقُولُا ثَـلَاثُ سَاعَاتٍ کَانَ رَسُولُ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلمیَنْهَانَا اَنْ نُصَلِّيَ فِیهِنَّ اَوْ اَنْ نَقْبُرَ فِیهِنَّ مَوْتَانَا حِینَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِینَ یَقُومُ قَائِمُ الظَّهِیرَةِ حَتَّی تَمِیلَ الشَّمْسُ وَحِینَ تَضَیَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ
موسیٰ بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے اور اموات کو دفن کرنے سے روکتے تھے: ایک طلوع آفتاب کے وقت جب تک وہ بلند نہ ہو جائے، دوسرا ٹھیک دوپہر کے وقت یہاں تک کہ زوال نہ ہو جائے، تیسرا غروبِ آفتاب کے وقت تاوقتیکہ وہ مکمل غروب نہ ہو جائے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ لَا یَتَحَرَّی اَحَدُکُمْ فَیُصَلِّي عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَلَا عِنْدَ غُرُوبِهَا
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی سورج طلوع ہوتے وقت اور سورج غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم إِذَا بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ فَاَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّی تَبْرُزَ وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَاَخِّرُوا الصَّلَاةَ حَتَّی تَغِیبَ
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ ظاہر ہو جائے تو نماز کو اس وقت تک موقوف رکھو جب تک سورج اچھی طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے تو نماز کو اس وقت تک موقوف رکھو جب تک سورج مکمل غائب نہ ہو جائے۔
عَنْ حَکِیمِ بْنِ حَکِیمٍ وَهُوَ ابْنُ عَبَّادِ بْنِ حُنَیْفٍ اَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ اَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِيَّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ اَمَّنِي جِبْرِیلُ عِنْدَ الْبَیْتِ مَرَّتَیْنِ فَصَلَّی الظُّهْرَ فِي الْاُولَی مِنْهُمَا حِینَ کَانَ الْفَيْئُ مِثْلَ الشِّرَاکِ ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ کُلُّ شَيْئٍ مِثْلَ ظِلِّهِ ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ حِینَ وَجَبَتْ الشَّمْسُ وَاَفْطَرَ الصَّائِمُ ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ حِینَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ صَلَّی الْفَجْرَ حِینَ بَرَقَ الْفَجْرُ وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَی الصَّائِمِ وَصَلَّی الْمَرَّةَ الثَّانِیَةَ الظُّهْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَيْئٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالْاَمْسِ ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِینَ کَانَ ظِلُّ کُلِّ شَيْئٍ مِثْلَیْهِ ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الْاَوَّلِ ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَةَ حِینَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ ثُمَّ صَلَّی الصُّبْحَ حِینَ اَسْفَرَتِ الْاَرْضُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِیلُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ هَذَا وَقْتُ الْاَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِکَ وَالْوَقْتُ فِیمَا بَیْنَ هَذَیْنِ الْوَقْتَیْنِ
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریلِ امین نے دو مرتبہ بیت اللہ شریف کے پاس میری امامت کی۔ پہلی مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہو گیا، عصر اس وقت پڑھی جب ہر شے کا سایہ اس کی مثل ہو گیا، پھر مغرب کی نماز اس وقت پڑھی جب سورج غروب ہوا اور روزہ دار نے روزہ افطار کیا، پھر عشاء کی نماز شفق کے غائب ہونے پر پڑھی، صبح کی نماز طلوع فجر کے وقت ادا کی جس وقت روزہ دار پر کھانا حرام ہو جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہو جاتا ہے اور یہ وہ وقت ہے جس میں پہلی مرتبہ عصر کی نماز ادا کی تھی، پھر ہر شے کا سایہ دو مثل ہونے پر نماز عصر پڑھی، مغرب پہلے وقت پر ادا کی، عشاء کی نماز رات کا ایک تہائی گزرنے پر پڑھی، پھر صبح کی نماز اس وقت پڑھی جب زمین روشن ہو گئی۔ اس کے بعد حضرت جبریل نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا اے محمد (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! آپ سے پہلے انبیاء کا وقت نماز یہی ہے اور ان دو وقتوں کے درمیان نماز کا وقت ہے۔
ترمذي، السنن، 1: 280، رقم: 149
عَنْ اَبِي هُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِصلیٰ الله علیه وآله وسلم إِنَّ لِلصَّلَاةِ اَوَّلًا وَآخِرًا وَإِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِینَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَآخِرَ وَقْتِهَا حِینَ یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ وَإِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِینَ یَدْخُلُ وَقْتُهَا وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِینَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ وَإِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِینَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِینَ یَغِیبُ الْاُفُقُ وَإِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَائِ الْآخِرَةِ حِینَ یَغِیبُ الْاُفُقُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِینَ یَنْتَصِفُ اللَّیْلُ وَإِنَّ اَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِینَ یَطْلُعُ الْفَجْرُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِینَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز کا ایک وقت آغاز ہے اور ایک وقت انتہا۔ ظہر کا ابتدائی وقت سورج کا زوال ہے اور آخری وقت جب وقت عصر داخل ہو جائے۔ عصر کا ابتدائی وقت جب یہ وقت (عصر کا) داخل ہو جائے اور آخری وقت جب سورج کا رنگ پیلا پڑ جائے۔ مغرب کا پہلا وقت غروب آفتاب ہے اور آخری وقت شفق کا غائب ہونا ہے۔ عشاء کا وقت شفق کے غائب ہوتے شروع ہوتا ہے اور نصف رات کو آخری وقت ہے۔ صبح کا پہلا وقت طلوع فجر ہے اور انتہائی وقت طلوع آفتاب ہے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ اَبِي قَتَادَةَ عَنْ اَبِیهِ قَالَ سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم لَیْلَةً فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا یَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ اَخَافُ اَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ قَالَ بِلَالٌ اَنَا اُوقِظُکُمْ فَاضْطَجَعُوا وَاَسْنَدَ بِلَالٌ ظَهْرَهُ إِلَی رَاحِلَتِهِ فَغَلَبَتْهُ عَیْنَاهُ فَنَامَ فَاسْتَیْقَظَ النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَالَ یَا بِلَالُ اَیْنَ مَا قُلْتَ قَالَ مَا اُلْقِیَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ قَالَ إِنَّ اﷲَ قَبَضَ اَرْوَاحَکُمْ حِینَ شَائَ وَرَدَّهَا عَلَیْکُمْ حِینَ شَائَ یَا بِلَالُ قُمْ فَاَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ فَتَوَضَّاَ فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ وَابْیَاضَّتْ قَامَ فَصَلَّی
عبداﷲ بن ابوقتادہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ماجد نے فرمایا: ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت سفر کر رہے تھے۔ بعض لوگ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! کاش! آپ ہمارے ساتھ آرام فرماتے۔ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ تم نماز کے وقت سوئے نہ رہو۔ حضرت بلال نے کہا: میں آپ لوگوں کو جگا دوں گا۔ سب لیٹ گئے اور حضرت بلال نے بھی سواری سے اپنی پیٹھ لگالی۔ اُن کی آنکھیں اُن پر غالب آئیں (یعنی نیند غالب آگئی) اور سو گئے۔ پھر نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے جبکہ سورج کا کنارا طلوع ہو چکا تھا۔ فرمایا کہ اے بلال! تم نے کیا کہا تھا؟ عرض گزار ہوئے کہ ایسی نیند مجھ پر کبھی نہیں ڈالی گئی تھی۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحوں کو قبض کر لیا اور جب چاہا تمہاری طرف لوٹا دیا۔ اے بلال! کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤ۔ پھر وضو کیا اور جب سورج بلند اور سفید ہو گیا تو کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔
عَنْ اَبِي هُرَیْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم قَالَ مَنْ اَدْرَکَ مِنْ الصُّبْحِ رَکْعَةً قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الصُّبْحَ وَمَنْ اَدْرَکَ رَکْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی ایک رکعت پا لی تو اس نے صبح کی نماز پا لی، اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی اس نے نماز عصر پا لی۔
حضرت علامہ علی بن سلطان محمد القاری المعروف ملا علی قاری، مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی شرح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’مَنْ اَدْرَکَ مِنْ الصُّبْحِ رَکْعَةً‘ امام بغوی رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ’رکعةً‘ سے مراد اس کے رکوع اور سجود ہیں، اور یہ فرمان بطورِ تغلیب ہے۔’من الصبح‘ یعنی فجر کی نماز۔ ’قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الصُّبْحَ‘ ابن الملک فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اس نے فجر کا وقت پا لیا۔ اگر وہ پہلے نماز کا اہل نہیں تھا، پھر وہ اہل ہو گیا۔ اگر ایک رکعت کے بقدر بھی وقت بچ گیا تو وہ نماز اس کے ذمہ لازم ہو گئی۔ ایک قول کے مطابق اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے نماز کی فضیلت پا لی۔’وَمَنْ اَدْرَکَ رَکْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ‘ امام نووی رحمہ اﷲ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ طلوعِ شمس کے ساتھ ہی صبح کی نماز باطل ہو جاتی ہے، کیونکہ نہی عن الصلوٰۃ کا وقت داخل ہو گیا ہے، بخلاف غروب شمس کے، اور یہ حدیث ان کے خلاف دلیل ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ صدر الشریعہ نے کتب اصولِ فقہ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ جزئِ مقارن وجوب صلوٰۃ کی ادائیگی کے لئے سبب ہوتا ہے اور عصر کا آخری وقت، وقتِ ناقص ہے، کیونکہ وہ سورج کی عبادت کا وقت ہے۔ لہٰذا اس وقت میں نماز بھی ناقص واجب ہوئی۔ تو جب وہ ادا کرے گا تو وہ ویسی ہی ادا کرے گا جیسی واجب ہوئی تھی، پھر اگر درمیان میں غروبِ شمس کی وجہ سے فساد آجائے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ جب کہ فجر کا تمام وقت، وقتِ کامل ہے، کیونکہ سورج کے طلوع سے قبل اس کی عبادت نہیں کی جاتی تو سورج طلوع ہوتے وقت نماز بھی کامل ہی واجب ہوئی۔ لیکن جب نماز کے طلوع شمس کی وجہ سے فساد آ گیا تو اس سے نماز فاسد ہو جائے گی، کیونکہ نماز جیسی واجب ہوئی تھی ویسی نہیں ادا کر رہا۔ اگر یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ معرضِ نص میں تعلیل ہے تو اس کا جواب ہم یہ دیتے ہیں کہ جب اس حدیث اور اوقاتِ ثلاثہ میں نہی عن الصلوٰۃ والی روایت میں تعارض آ گیا تو ہم نے ضابطہ کے مطابق قیاس کی جانب رجوع کیا اور قیاس نمازِ عصر میں اس حدیث کو ترجیح دیتا ہے اور فجر میں حدیث نہی کو ترجیح دیتا ہے۔ دیگر باقی نمازیں اوقاتِ ثلاثہ مکروہہ میں حدیثِ نہی کی وجہ سے جائز نہیں ہیں، کیونکہ اس حدیث کے معارض کوئی روایت نہیں ہے۔ (متفق علیہ) میرک فرماتے ہیں کہ اسے چاروں ائمہ نے نقل کیا ہے۔
ملا علی قاري، مرقاة المفاتیح، 2: 285، 286، دار الکتب العلمیة بیروت
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں نماز پنجگانہ کے آخری اوقات کی وضاحت بالترتیب درج ذیل ہے:
کسی بھی نماز کا وقت گزر جانے کے بعد صرف فرض اور واجب کی قضاء لازم ہے، سنن اور نوافل کی نہیں۔ اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو سورج بلند ہونے کے بعد وقت استواء سے پہلے ان کی قضاء پڑھ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔