سود کی جامع تعریف کیا ہے؟


سوال نمبر:3395
السلام علیکم مفتی صاحب! میں "سود" کی مکمل تعریف جاننا چاہتا ہوں۔ اصل میں میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں اور ایک امریکن کمپنی سالانہ تین (3) فیصد کی شرح کی بنیاد پر مجھے قرض فراہم کر رہی ہے۔ مجھے بتائیے کہ اس طرح کا قرض اسلام کی روشنی میں صحیح ہے یا غلط؟ یا یہ معاہدہ اسلامی طریقوں سے لکھا جاسکتا ہے؟ براہ مہربانی میری راہنمائی فرمائیں

  • سائل: مرغوب احمدمقام: اسلام آباد
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2014ء

زمرہ: سود  |  قرض  |  مضاربت

جواب:

سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت دی گئی ہے:

لغت میں ربا کا معنی زیادتی‘ بڑھوتری اور بلندی ہے۔ ابو القاسم الحسین بن محمد اصفہانی کہتے ہیں:

الربا الزیادة علی رأس المال لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دُون وجه۔

اصل مال پر زیادتی کو ربا کہتے ہیں لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، دائن کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو جائز ہے سود نہیں۔

أصفهاني، المفردات في غریب القرآن، 1: 187، دار المعرفة لبنان

ابو منصور محمد بن احمد الازہری، محمد بن مکرم بن منظور الافریقی اور محمد مرتضیٰ الحسینی الزبیدی فرماتے ہیں:

الرِّبا رَبَوان فالحرام کُلّ قَرْض یُؤْخذ به أکثر منه أو تجرُّ به مَنْفعة فحرام والذي لیس بحرام أن یَهبه الانسان یَسْتَدعي به ما هو أکثر أو یُهدي الهدِیَّة لِیُهدَی له ما هو أکثر منها۔

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے۔

  1. الأزہري، تہذیب اللغة، 15: 196، دار احیاء التراث العربي بیروت
  2. ابن منظور، لسان العرب، 14: 304، دار صادر بیروت
  3. الزبیدي، تاج العروس، 38: 118، دار الہدایة

ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری لکھتے ہیں:

هو في الشرع الزیادة علی أصل المال من غیر عقد تبایع۔

شریعت میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرنا۔

ابن الأثیر الجزري، النهایة، 2: 192، المکتبة العلمیة بیروت

احمد بن علی الرازی الجصاص ابو بکر فرماتے ہیں:

هو القرض المشروط فیه الأجل و زیادة مال علی المستقرض۔

جس قرض میں مدت متعین کے ساتھ قرض لینے والے کو اضافی رقم دینا مشروط ہو۔

جصاص، أحکام القرآن، 2: 189، دار احیاء التراث العربي بیروت

لہٰذا قرض میں دیئے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے۔

آپ نے اپنے سوال میں بتایا ہے کہ کوئی کمپنی آپ کو اصل رقم پر تین (3) فیصد سالانہ اضافے کی بنیاد پر قرض دے رہی ہے، تو یہ سود ہے۔ اسلامی قوانینِ معیشت کے مطابق ایسا قرض لینے اور دینے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ جس قرض کے ساتھ بھی قرض خواہ متعین مدت کے ساتھ معین رقم کا مطالبہ کرے گا، وہ سوائے سود کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ ضرورت مند کے ساتھ ظلم اور اس کا استحصال ہے، اور اسلام ایسے ظلم اور استحصال کے خاتمے کے لیے آیا ہے۔

اس کے مقابلے میں اسلام کا طرزِ معیشت خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے، جس میں قرضِ حسنہ کو فروغ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر مضاربہ کی صورت میں سرمایہ کاری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ مضاربہ کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:

بیع مضاربہ کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی