جواب:
اسلام معتدل شریعت ہے اس کے تمام احکام افراط وتفریط سے پاک، انسان کے فطری جذبات وخواہشات کی رعایت کے ساتھ ، تعدی اور حد سے تجاوز کی ممانعت کے اصول پر دائر ہیں۔ اس لیے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی سے منع کیا گیا، تو ضروری تھا کہ فطری جذبات وخواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح طریقہ بھی بتلایا جائے۔ اس کے علاوہ بقاء نسلِ انسانی کا عقلی اور شرعی تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہ کر مرد وعورت کے اختلاط کی کوئی صورت تجویز کی جائے، اسی کا نام قرآن و سنت کی اصطلاح میں نکاح ہے۔
نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔
بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے۔
اس کی مزید وضاحت ملاحظہ کیجئے:
لڑکے اور لڑکی کا شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا کیسا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔