جواب:
اسقاطِ حمل کی مدت ایک سو بیس (120) دن ہے۔ حدیث پاک میں عملِ تخلیق کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان احدکم يجمع فی بطن امه اربعين يوما ثم علقة مثل ذلک ثم يکون مضغة مثل ذلک ثم يبعث الله ملکا فيومر باربع برزقه واجله وشقی او سعيد‘‘
’’ تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن گزارتا ہے (نطفہ) پھر اسی قدر علقہ۔ پھر اسی قدر مضغہ پھر اللہ فرشتہ بھیجتا ہے اور چار چیزوں کا حکم ہوتا ہے۔ رزق، عمر، نیک بخت یا بدبخت‘‘
بخاری، الصحيح، 2 : 976
فقہائے کرام فرماتے ہیں اگر حاملہ عورت چاہے تو ایک سو بیس (120) دن سے پہلے اسقاط حمل کر سکتی ہے۔
هل يباح الااسقاط بعد الحبل؟ يباح ما لم يتخلق شئی منه، ثم فی غير موضع ولا يکون ذلک الا بعد مائه وعشرين يوما انهم ارادوا بالتخليق نفخ الروح
کیا حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟ (ہاں) جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے۔ پھر متعدد مقامات پر تصریح ہے کہ تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔ تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے۔
رحم مادر میں استقرار حمل جب تک 120 دن یعنی چار ماہ کا نہ ہو جائے، حمل ضائع کرنا جائز ہے۔ جب بچہ بطن مادر میں چار ماہ کا ہو جائے تو، اب اسے ضائع کرناجائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے بچوں کی پیدائش سے بچہ یا زچہ کی صحت پر اور بچوں کی دیکھ بھال پر منفی اثرات پڑیں گے، تو اس صورت میں عورت کے لئے ضبط تولید کے مفید اصولوں کو اپنانا نہ صرف جائز بلکہ مناسب تر ہے۔ بچے کی پیدائش پر ماں کو جن تکالیف، کمزوریوں اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف عورتیں ہی کرسکتی ہیں۔ ہر ماں گویا مر کر دوبارہ زندہ ہوتی ہے۔ پھر پیدا ہونے والے بچے کو دو سال تک دودھ پلانا ماں کی ذمہ داری اور بچے کا حق ہے۔ لہٰذا ایسے مسائل سے بچنے کے لیے اسقاطِ حمل جائز ہے۔
اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجئے:
خاندانی منصوبہ بندی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔