سوال نمبر:3314
السلام علیکم مفتی صاحب! ایک غیر شادی شدہ سیدہ لڑکی جو گریجویٹ ہے اور اس کی مالی حالات بھی بہت اچھے ہیں یعنی اس کو ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ بغیر مجبوری کے ملازمت کرنا چاہتی ہے تو کیا اسلام اس کو اجازت دیتا ہے؟ اگر ملازمت کی جگہ غیر مردوں سے واسطہ پڑتا ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟
عورت کی ملازمت کی جائز صورتیں کون سی ہیں؟
- سائل: رضاءالدین۔مقام: انڈیا
- تاریخ اشاعت: 31 اکتوبر 2014ء
جواب:
اسلامی تقاضوں کے مطابق باپردہ اور محفوظ رہتے ہوئے باعزت طریقے سے عورتیں
ملازمت کرسکتی ہیں۔ مگر اس میں بھی چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
- ملازم عورتیں مرد افسروں کے ماتحت نہ ہوں۔
- عورتوں کے کام کے شعبے مردوں سے الگ ہوں۔
- کسی بھی حوالہ سے مردوں کو عورتوں تک رسائی نہ دی جائے۔
درج بالا امور کا لحاظ رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ مرد افسران ملازم خواتین کو
غلط مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد افسران غریب عورتوں کو تنخواہوں میں اضافے،
ملازمت میں ترقی اور اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
ایسی اور اس جیسی برائیوں سے ممکنہ حد تک پاک شعبہ جات میں خواتین ملازمت کرسکتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔