کیا کسی کو فرعون اور یزید کہنا درست ہے؟


سوال نمبر:3313
السلام علیکم! کیا دور حاضر کے حکام اعلیٰ کو فرعون یا یزید کہنا جائز ہے؟ اور ریاست میں اگر جب ایسے لوگ قابض ہو جائیں تو اسلامی تاریخ میں ایسے لوگوں سے اقتدار سے ہٹانے اور نئی حکومت لانے کیلئے ریاست میں کیسے اہم اقدامات ہونے چاہیے؟

  • سائل: افتخار احمدمقام: ہری پور۔ پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 23 دسمبر 2014ء

زمرہ: امور سیاست

جواب:

فرعون اور یزید جو شخصیات کے نام تھے، مگر ان کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کی وجہ اب وہ اس ذہنیت اور نظام کے استعارے بن چکے ہیں۔ یزید کی سوچ اور اس کا نظام یزیدیت کہلاتا ہے، جبکہ فرعون کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کو فرعونیت کہا جا تا ہے۔ یہ دونوں سوچیں اور نظام چونکہ ظلم، زیادتی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت، دہشت گردی اور غنڈہ گردی پر مبنی ہیں، تو جو شخص بھی ایسی سوچ رکھتا ہو یا ایسے نظام کو تقویت دے وہ فرعونی اور یزیدی کہلاتا ہے۔ ان لوگوں کو یہ نام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فرعون یا یزید ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اسی رویہ کہ مالک ہیں جو فرعون یا یزید کا تھا۔

اسلامی ریاست میں اگر کوئی ایسا شخص اقتدار پر قابض ہوجائے، تو ضروری ہے کہ اس کا اصل ظالمانہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے تاکہ لوگ اس کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔ قرآنِ مجید نے بھی یہی اصول سکھایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

النِّسَآء، 4: 148

درج بالا آیت سے یہ اصول اخذ ہوا کہ جب ظالم لوگ اقتدار پر قابض ہو جائیں تو ان کے ظلم کو روکنا، ان کے خلاف احتجاج کرنا اور انہیں مروجہ طریقوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے۔

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات، معاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجئے:

اسلام کا پسندیدہ نظامِ حکومت کیا ہے؟

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی