جواب:
تصویر کی کچھ صورتیں جائز ہیں اور کچھ ناجائز۔ جن تصاویر کا بنانا اور رکھنا جائز ہے ان کا بیچنا بھی جائز ہے اور جن تصاویر کا بنانا اور رکھنا جائز نہیں اس کی آمدنی بھی جائز نہیں۔ تصویر کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے:
شریعتِ اسلامیہ نے تصویر کے حرام ہونے کے چند اسباب بیان کیے ہیں: (1) تخلیق میں اللہ کی مشابہت کا ارادہ کرنا (2) تصویر کی ایسی تعظیم و تکریم جو شرعاً مخلوق کے لئے ناجائز ہو۔ یعنی ایسی تعظیم وتکریم ہے جس کے نتیجے میں تصویر کی عبادت ہونے لگے یا ہونے کا خوف ہو۔ اگر تصویر کی پوجا پاٹ کا خوف نہ ہو، تو تصویر جائز ہے۔ امام مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولا یکره تمثال غیر ذی الروح لاند لا یبعد
المرغینانی، الهدایه، 1: 142۔
اور جو چیز روح والی نہیں اسکی تصویر جائز ہے۔ کیونکہ اس کی عبادت نہیں کی جاتی۔
امام نووی فرماتے ہیں:
هذا محمول علی من صور الاصنام فیعبد فله اشد عذاب لانه کافر وقیل هذا فیمن قصدا لمضهاة بخلق الله تعالیٰ واعتقد ذلک وهو ایضا کافر وعذابه اشد۔
’’(تہدید) اس صورت میں ہے کہ کوئی شخص بت بنائے اور اس کی عبادت ہو۔ اس کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ کافر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ (وعید) اس شخص کے لئے ہے جو اللہ کے پیدا کرنے سے مشابہت کی نیت کرے، اور اس کا عقیدہ رکھے (کہ میں اللہ کی طرح پیدا کرتا ہوں) یہ بھی کافر ہے اور اس پر بھی عذاب شدید ہوا‘‘۔
نووی، اشعة اللمعات
اگر تصویر بنانے میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہو، تو حرام ہے۔ سو معلوم ہوا کہ گناہ اور حرمت کا سبب وہ تصویر ہوگی جس کو بنانے والا، اللہ کی تخلیق کی مشابہت کا قصد کرے۔ اگر یہ نیت نہیں تو اس پر وعید نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگوٹھی پر دو مکھیاں بنی ہوئی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں دانیال علیہ السلام کی انگوٹھی ملی، اس کےنگینے پر شیر اور شیرنی کی تصویر تھی، اور دونوں کے درمیان میں بچہ تھا جسے وہ چاٹ رہے تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس تصویر کو دیکھا تو رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، آپ نے وہ انگوٹھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو دے دی
ابن همام، فتح القدیر، 1: 363
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک الماری چھوٹی تصویروں سے بھری ہوئی تھی‘‘۔
ابن همام، فتح القدیر، 1: 363
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انہوں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا یا جس میں تصویریں تھیں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیا اور اس سے دو گدے بنالئے۔
فکانتا فی البیت یجلس علیها۔
بخاری، الصحیح،1: 337
’’دونوں گدے گھر میں تھے جن پر سرکار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے‘‘
پس مطلق ہر ذی روح کی تصویر ناجائز ہرگز نہیں، ناجائز وہی تصویریں ہیں جو غلط مقاصد کے لئے استعمال ہوں۔ اگر مطلقاً تصویر حیوان ناجائز ہوتی تو کپڑے سے گدے بناکر گھر میں رکھنے سے بھی رحمت کے فرشتے اندر نہ آتے۔
تصویر کے جواز و عدمِ جواز کا دارومدار ان امور پر ہے کہ کس کی تصویر؟ کیسی تصویر؟ کس مقصد کے لئے بنائی گئی تصویر؟ اگر صحیح مقاصد ہوں، جیسے ملازمت، تعلیم، ویزا، حج، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، یادگار کے لئے شریفانہ انداز میں اپنی یا اپنے اہل و عیال کی تصاویر بنانا، تو یہ جائز ہے۔ گھر میں رکھنا بھی جائز ہے۔ مگر عریاں، فحش اور غیر محرموں کی تصاویر یا کسی شریف زادی یا زادے کو بلیک میل کرنے کے لئے اس کی تصویر بنانا، دشمن کے لئے جاسوسی کی خاطر، فحاشی پھیلانے کے لئے جیسے اکثر فلمی اشتہارات اور فلمیں، قومی اور حساس مقامات و تنصیبات کی تصویر بنانا اور دشمن تک قومی راز پہنچانے، چوری، ڈاکے، اغوا، قتل اور دیگر جانی و مالی نقصانات پہنچانے کیلئے نقشے و تصاویر بنانا، خواہ جانداروں کی ہوں یا غیر جانداروں کی حرام ہے۔ اسی طرح اگر پوجا پاٹ کے لئے تصاویر بنائی جائیں خواہ جاندار کی ہوں جیسے عام بت یا غیر جاندار کی جیسے صلیب ، تو حرام ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ غلط تصویر ہویا غلط مقصد کے لیے ہو، تو بنانی بھی حرام اور رکھنی بھی حرام‘ صیحح ہو اور صیحح مقاصد کے لیے ہو تو بنانی بھی جائز اور بیچنی بھی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔