اسلام علیکم! ایک سال پہلے گھریلو جھگڑےکی وجہ سے میرے شوہر خادم حسین نے مجھے گھر سےنکال دیا، اور تین دفعہ طلاق دے دی۔ لیکن چھوٹے بچوں کے علاوہ کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ اب وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ میری بیوی نے مجھے کہا تھا کہ مجھے نکالنا ہے تو پکا پکا نکالو تو میں نے کہا پکی پکی چلی جاؤ۔
خاندان کے افراد کے کہنے پر وہ ایک فتویٰ لے کر آئے ہیں جس کی رو سے طلاق ہو گئی ہے مگر تجدیدِ نکاح ہو سکتا ہے۔ لیکن اس فتویٰ میں طلاق کا ذکر نہیں کیا گیا صرف جھگڑےکو بنیاد بنایا گیا ہے۔ میں اب بھی اسی بات پر قائم ہوں کہ مجھے تین دفعہ طلاق دی گئی تھی۔
اب خاندان والے خادم حسین کو کہتے ہیں کہ قسم دے تو تجدید نکاح کر لے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ قسم نہیں دیں گے۔
برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ آپ لوگوں کے لڑائی جھگڑے کی نوعیت کیا تھی؟ اور آپ کے شوہر نے کس کیفیت میں طلاق کے الفاظ بولے ہیں؟ اس مسئلہ میں تین صورتیں ہیں:
1۔ اگر طلاق دیتے وقت آپ کے شوہر انتہائی غصے میں تھے اور غصہ ان کی عقل پر غالب آگیا اور ان کا خود پر کنٹرول نہیں رہا تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ آپ پہلے کی طرح ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا انتہائی غصہ میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
2۔ اگر آپ کے شوہر کا غصہ انتہائی شدید نہیں تھا تو پھر ان کے الفاظ کی ترتیب کے حوالے سے دوصورتیں ہیں:
الفاظِ کنایہ سے طلاقِ بائن کب واقع ہوتی ہے؟
3۔ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہے، آپ کا شوہر کہتا ہے کہ میں نے آپ کی ڈیمانڈ پر کہا ہے کہ ’’پکی پکی چلی جاؤ‘‘ اور آپ کا کہنا ہے کہ اس نے آپ کو تین بار طلاق دی ہے تو اس صورت میں آپ ثبوت پیش کریں گی اور اگر ثبوت نہ ہو تو پھر شوہر کی بات مانی جائے گی۔ جیسے وہ کہتا ہے اسی پر عمل کیا جائے گا۔ اس کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
شوہر اور بیوی کے اختلافی قول کی صورت میں کس پر اعتبار کیا جائے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔