سوال نمبر:3218
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ! زید ایک عالمِ دین ہے اور اہلِ طریق سے ہے۔ سلسلہ چشتیہ و قادریہ میں بیعت ہے اور خلافت یافتہ ہے۔ زید کی دو بیویاں ہیں۔ پہلی شادی کے تقریبا 9 سال کے بعد کچھ وجوہات کی بنا پر زید نے دوسری شادی کی تھی۔ دوسری شادی کے فورا بعد زید کی پہلی بیوی اور بچے زید کو چھوڑ کر پانچ سال کیلئے دور چلے گئے تھے، لیکن بعد میں زید نے انہیں مناکر واپس اپنے پاس بلالیا۔ زید کی پہلی بیوی اور بچوں کو واپس آئے تقریبا 7 سال ہوگئے، لیکن زید اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اور پہلی بیوی کے گھر ہفتہ میں چھ دن دوپہر کے کھانے کے لئے آتے ہیں اور تین سے چار گھنٹوں بعد چلے جاتے ہیں۔ سات سال سے ایک رات بھی اپنے پہلے گھر میں نہیں رہے۔ لیکن دونوں بیویوں کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں۔ زید کی پہلی بیوی کے بچوں کو یہ تکلیف ہے کہ ہمارے والد راتوں میں ہمارے ساتھ نہیں رہتے اور دن میں بھی بہت ہی کم وقت دے پاتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے والد راتوں میں بھی ان کے ساتھ رہیں۔ بچوں کے مطالبہ کرنے پر زید کہتے ہیں کہ میں بیویوں کے حقوق تو برابر ادا کررہا ہوں۔ تم لوگوں کو بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ کھانا، کپڑے وغیرہ برابر دے رہاہوں۔ اور کیا چاہئے؟ لیکن زید کی پہلی بیوی کے بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ اور دوسری بیوی کے دونوں بچوں کو روزانہ اپنے والد کے ساتھ رہنے کا موقع مل رہا ہے جبکہ اس کے زیادہ حقدار پہلی بیوی کے بچے ہیں۔ ایسی صورت میں بتایئے کہ زید کا یہ عمل کہ روزانہ اپنے چھوٹے گھر میں رہنا اور بڑے گھر کو صرف ہفتہ میں چھ دن جانا اور تین چار گھنٹے بتا کر واپس آجانا کس حد تک درست ہے؟ کیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے؟ کیا دوسری شادی کا مطلب اسلام میں یہی ہے کہ پہلی بیوی اور اس کےبچوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جائے؟ کیا زید کی پہلی بیوی اور اس کے بچوں کو اسی طرح زندگی بھر تکلیف میں رہنا چاہئے؟ کیا پہلی بیوی کے بچوں کا زید پر کوئی حق نہیں؟ کیا ان کی خواہش خلافِ شریعت ہے کہ ان کے والد راتوں میں بھی ان کے ساتھ رہیں اور ان کے لئے اپنا وقت نکالے؟ برائے مہربانی از روئے شرع بتائیے کہ اسلام اس معاملہ میں کیا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ تمام حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔
بینوا و توجروا۔
- سائل: محمد شبیر احمدمقام: حیدرآباد، الہند
- تاریخ اشاعت: 30 مئی 2014ء
جواب:
آپ نے زید کے بارے بیان کیا کہ وہ ایک عالمِ دین ہے اور اہلِ طریقت سے ہے۔ اگر
ایسا ہے تو یقیناً زید کو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح
ازواج مطہرات میں عدل فرماتے تھے۔ لہٰذا سنت طریقہ تو یہی ہے کہ حضرت صاحب دونوں بیویوں
کو برابر برابر وقت دیں، دونوں کے ساتھ عدل کی تو یہی صورت ہے۔ اگر ایک بیوی اور اس
کے بچوں کے ساتھ ایک دن اور رات گزارتے ہیں، تو ضروری ہے کہ دوسری بیوی اور اس کے بچوں
کے ساتھ بھی دن اور رات بتائیں۔ اسی طرح کھانے اور دیگر کاموں میں بھی دونوں کو وقت
دیں۔ اگر ممکن ہو تو دونوں کو اکٹھے سیر و تفریح کے لیے بھی ساتھ لے جائیں۔ اس سے دونوں
بیویوں کی اولاد میں فاصلہ کم ہوگا اور علامہ صاحب کی زندگی بھی پُرسکون ہو سکے گی۔
دونوں کو صرف معاشی ضروریات یکساں دینے سے بات مکمل نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ ان
کو وقت اود دیگر حقوق بھی برابر دینا ضروری ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔