جواب:
قرآنِ کریم میں سود خوروں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا جا رہا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ۔
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
(البقرۃ،279،278:2)
معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے تو سود خور کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جا رہا ہے۔ تو سود خور کی عبادت اور دیگر سرگرمییوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ اس کی قدرو منزلت اللہ کے ہاں کیا ہے۔ جب تک سود خور اس کام کو کرنے کا باوجود اس کو حرام سمجھے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ البتہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ضرور ہے۔ اِس لیے اُس کو احساس دلانے اور اس فعلِ قبیحہ سے روکنے کی خاطر اس کا قربانی میں حصہ نہ ڈالنا درست ہے۔ لیکن شرعا منع نہیں ہے کہ اس کے ساتھ قربانی میں حصہ نہ ڈالا جائے۔ لیکن اگر وہ سود خوری کو مباح جانے تو پھر اس کے ساتھ حصہ ڈالنا منع ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔