جواب:
سب سے بڑی اور پہلی دلیل تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث یا آثارِ صحابہ میں لوگوں کا مل کر بآوازِ بلند درودِ پاک پڑھنا منع نہیں ہے۔ جب منع نہیں کیا گیا تو پھر جواز کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات درود و سلام کا پڑھنا ہے، اس کے منع کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، جواز کے لیے نہیں۔
دوسری دلیل آقا علیہ السلام پر درود وسلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کا حکمِ مطلق ہے، جس میں ایسی کوئی قید نہیں لگائی گئی کہ بیٹھ کر بھیجو، کھڑے ہوکر بھیجو، اکیلے اکیلے پڑھو یا مل کر، دل میں پڑھو یا بآوازِ بلند۔ حکمِ خداوندی یہ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(الاحزاب۔56:33)
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرم صلی اللہ علیہ و سلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو.
آیتِ مباکہ میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اکیلے اکیلے درود و سلام بھیجنے کا ذکر نہیں ہوا۔ لہٰذا جیسے کوئی مناسب سمجھےآقا علیہ السلام پر درود سلام پیش کرتا رہے۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ جب ہم آپس میں ایک دوسرے کو سلام کہتے ہیں تو دل میں نہیں کہتے بلکہ با آوازِ بلند کہتے ہیں۔ تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس پر بلند آواز سے سلام بھیجنے میں کیا مانع ہے؟
چوتھی اور آخری دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل دے کر رکھ دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ مبارک میں صحابہ کرام ٹولیوں کی صورت میں داخل ہوتے رہے اور درود وسلام کا نذرانہ بھیجتے رہے۔ لہٰذا صحابہ کرام سے یہ عمل ثابت ہے کہ مل کر درود وسلام پڑھنا جائز ہے۔
امت کی بدقسمتی ہے کہ جو باتیں اسلام کے قرنِ اوّل سے صلحائے امت میں مقبول تھیں، انہیں قابلِ اعتراض بنایا جارہا ہے۔ جس کا مقصد اسلام میں فتنہ فساد کے سوا کچھ نہیں۔
زیرِ بحث سوال سے متعلق مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔