کیا حق مہر کی ادائیگی میں تاخیر باعثِ گناہ ہے؟


سوال نمبر:3178
کیا اگر نقد حق مہر کی ادائیگی میں تاخیر ہو جائے تو گناہ ہو گا؟

  • سائل: فریال خلیلمقام: بنگلو ر انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 26 نومبر 2014ء

زمرہ: نکاح

جواب:

حق مہر عورت کا مرد پر ایک قرض ہوتا ہے۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

(النساء، 24:4)

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے.

ایک اور آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:

وَآتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا

اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ۔

لہٰذا جس طرح کا معاہدہ ہوگا، اس کے مطابق عمل کرنا پڑے گا۔ جیسے قرض وعدہ کے مطابق واپس نہ کرنا وعدہ خلافی ہے، لیکن اگر قرض دینے والا مزید وقت دے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ بالکل اُسی طرح عورت اگر اپنی مرضی سے مہلت دے، تو اس کی مرضی۔ اور اگر مقررہ وقت پر طلب کر لے تو اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ جب وہ طلب کرے تو مرد ادائیگی کا پابند ہے۔ نہ ادا کرنے کی صورت میں شریعت نے اسے حق دیا ہے کہ وہ مرد کو قریب آنے سے روک سکتی ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی