جواب:
یہ مسئلہ دراصل کفو کا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
علامہ ابن منظور الافریقی لکھتے ہیں:
الکفء النظير والمساوي ومنه الکفاة في النکاح وهو ان يکون الزواج مساويا للمراة في حسبها ودينها ونسبها و بيتها غير ذالک.
’’کفو کا مطلب نظیر اور برابری ہے۔ اسی سے نکاح میں کفاء ت سے مراد ہے۔ وہ یہ ہے کہ خاوند کا حسب، دین، نسب اور گھر وغیرہ میں عورت کے برابر ہونا۔‘‘
ابن منظور، لسان العرب، 1: 139، دار صادرِ، بيروت
سید محمد مرتضیٰ زبیدی لکھتے ہیں کہ کفو کا معنی ہے :
’’مثلہ ہر چیز کی مثال کو کفو کہتے ہیں‘‘۔
زبيدي، تاج العروس، 1: 108، دار احياء التراث العربي
کفو کا معنی ہے صفات مخصوصہ ممتازہ میں مساوی اور نظیر ہونا، نکاح میں یہ دیکھا
جاتا ہے کہ لڑکا، لڑکی کے معیار سے کم اور نیچا تو نہیں ہے کیونکہ جو لڑکی صفات مخصوصہ
ممتاز کے اعتبار سے اعلیٰ ہو وہ اس لڑکے کا فراش بننے کو ناپسند کرے گی۔ جو اس سے صفات
میں ادنیٰ ہو تو لڑکی کے وارث بھی اس بات کو اپنے لئے باعث عار سمجھتے ہیں۔
کفو میں عموماً چھ چیزوں کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
در المختار، 2: 437
کفو کی حقیقت اتنی ہے کہ لڑکے لڑکی میں ہر ممکن حد تک مناسبت کا لحاظ کیا جائے۔ بے جوڑ اور غیر مناسب رشتوں سے بچا جائے تاکہ دونوں میں ہم آہنگی مطابقت و موافقت ہو۔ الفت ہو، کالے، گورے، سید غیر سید۔ ذات پات کا نظام اسلام میں نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :
عن انس بن مالک قال قال رسول صلی الله عليه وسلم: الناس کاسنان المشط.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔
الشهاب، المسند، 1: 145، رقم: 195، مؤسسة الرسالة، بيروت
حجۃ الوادع کے موقع پر آقائے کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا:
يٰا ايُّها النّاس ان ربّکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر إلا بالتّقوی ألا هل بلغت ؟ قالوا بلی يا رسول اﷲ قال فليبلغ الشهد الغائب.
’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو کالے اور کسی کالے کو سرخ پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں‘‘۔
بيهقی، شعب الايمان، 4: 289، الرقم: 5137، دار الکتب العلمية بيروت
علامہ سرخسی ایک طویل بحث کے بعد لکھتے ہیں۔
وتاويل الحديث الاخر الندب اِلی التواضع وترک طلب الکفة لا الالزام وبه نقول ان عندالرضا يجوز العقد.
’’دوسری صورت کا جواب یہ ہے کہ تواضع اور انکسار کرنا اور کفو کی طلب کو ترک کرنا مستحب ہے اور کفو کا اعتبار کرنا لازم نہیں ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رضا کے وقت (غیرکفو) میں نکاح کرنا جائز ہے۔‘‘
سرخسي، المبسوط، 5: 25، دار المعرفة بيروت
اس عبارت سے یہ واضح ہو گیا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک کفو کو طلب کرنا لازم نہیں ہے بلکہ مستحب یہ ہے کہ تواضع اور انکسار کو اختیار کر کے غیر کفو میں نکاح کیا جائے۔
بعض لوگوں نے یہ کہا کہ غیر کفو میں نکاح کرنا حرام ہے اور یہ نکاح زنا کے مترادف ہے۔ خواہ ان کے ورثاء و اولیاء کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ لیکن ان بزرگوں نے قرآن مجید کے حکم پر غور نہیں فرمایا کہ قرآن مجید نے ان تمام عورتوں کا ذکر فرمایا جو نسب، رضاعت، صہر، جمع فی النکاح اور منکوح غیر ہونے کے اعتبار سے حرام ہیں اس کے بعد فرمایا:
وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَط
’’اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے‘‘۔
النساء، 4: 24
اس آیت کریمہ میں اﷲتعالیٰ نے کلمہ ’’ما‘‘ عموم کا استعمال فرما کر بتادیا کہ مذکورہ حرام کردہ عورتوں کے علاوہ سب حلال ہیں اس میں کفو اور غیر کفو کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ
’’ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لیے پسندیدہ اور حلال ہوں‘‘۔
النساء، 4: 3
مندرجہ بالا آیت میں بھی لفظ ’’ما‘‘ جو کہ عموم کے لئے ہے یعنی محرمات کے علاوہ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں خواہ وہ کفو سے ہو یا غیر کفو سے ہوں باہمی رضامندی سے نکاح کر لو۔
يٰـاَيُّها النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْ ط
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔
الحجرات؛ 49: 13
محدثین و مفسرین نے اس آیت مبارکہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے :
امر رسول اﷲ صلی الله عليه وسلم بني بياضة ان يزوجوا ابا هند امراة منهم فقالوا يارسول اﷲ ا نزوج بناتنا موالينا؟ فانزل اﷲ عزوجل (اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی...)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بیاضہ کو حکم دیا کہ وہ ابو الہند کے ساتھ اپنی ایک عورت کی شادی کر دیں۔ انہوں نے کہا:کیا ہم اپنی بیٹیوں کا نکاح غلاموں سے کردیں ؟ اس موقعہ پر یہ ایک آیت نازل ہوئی اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی ۔۔۔‘‘
ابو دؤد، المراسيل، 1:195، رقم: 230، مؤسسة الرسالة، بيروت
بيهقي، السنن، 7: 136، رقم: 13558، مکتبة دار الباز مکة المکرمة
قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 16: 341، دار الشعب القهرة
آلوسي، روح المعاني، 26: 163، دار احياء التراث العربي
سيوطي، الدر المنثور، 7: 578، دار الفکر بيروت
شوکاني، فتح القدير، 5: 69، دار الفکر بيروت
ابو الہند حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فصد لگانے والا غلام تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک غلام سے کر کے نسب و حسب اور صنعت و حرفت کے سارے بت توڑ دیئے۔
وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی يُؤمِنَّ ط وَلَاَمَةٌ مُّؤمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْج
البقره، 2: 221
’’اور تم مشرک عورتوں کے ساتھ نکاح مت کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، اور بے شک مسلمان لونڈی (آزاد) مشرک عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں بھلی ہی لگے اور (مسلمان عورتوں کا) مشرک مردوں سے بھی نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں‘‘۔
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے صراحتاً بتا دیا کہ مسلمان آزاد لڑکیوں کا نکاح غلام مسلمانوں سے کرنا جائز ہے۔ حالانکہ غلام آزاد کا کفو نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا آیات مقدسہ سے غیر کفو میں نکاح کے جواز کا بیان ہے۔
احادیث مبارکہ میں غیر کفو میں نکاح سے متعلق بے شمار ثبوت ہیں۔
دیندار عورت سے شادی کرو:
عَنْ ابِي هرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْاةُ لِارْبَعٍ لِمَالِها وَلِحَسَبِها وَجَمَالِها وَلِدِينِها فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے چار چیزوں کے باعث نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے تیرے ہاتھ گرد آلودہ ہوں، تو دیندار کو حاصل کر‘‘۔
بخاري، الصحيح، 5: 1958، رقم: 4802، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 2: 1086، رقم: 1466، دار احياء التراث العربي
ابن حبان، الصحيح، 9: 344، رقم: 4036، مؤسسة الرسالة، بيروت
ابي عوانة، المسند، 3: 11، رقم: 4010، دار المعرفة بيروت
دار قطني، السنن، 3: 302، رقم: 212، دار المعرفة بيروت
عَنْ ابِي امَامَةعَنِ النَّبِيِّ انَّه کَانَ يَقُولُ مَا اسْتَفَادَ الْمُؤمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اﷲِ خَيْرًا لَه مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ إِنْ امَرَها اطَاعَتْه وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْها سَرَّتْه وَإِنْ اقْسَمَ عَلَيْها ابَرَّتْه وَإِنْ غَابَ عَنْها نَصَحَتْه فِي نَفْسِها وَمَالِه.
’’ابوامامہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اللہ کے تقویٰ کے بعد جو اپنے لیے بہتر تلاش کرے وہ نیک بیوی ہے کہ اگر اسے حکم دے تو اطاعت کرے، اس کی جانب دیکھے تو خوش ہو، اگر وہ کسی بات کے کرنے پر قسم کھا لے تو اسے پوری کر دے۔ اگر شوہر کہیں چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اپنی جان و مال کی نگہبانی کرے‘‘۔
ابن ماجه، السنن، 1: 596، رقم: 1857، دار الفکر بيروت
طبراني، المعجم الکبير، 8: 222، رقم: 7881، مکتبة الزهراء لموصل
امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں :
عن یحيی بن ابي کثير قال قال رسول اﷲ صلی الله عليه وسلم اذا جاء کم من ترضون امانته وخلقه فانکحوه کائنا من کان فان لا تفعلوا تکن فتنه فی الارض و فساد کبير، اوقال: عريض.
’’یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس ایسے شخص کے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو اس سے نکاح کردو خواہ وہ کوئی بھی شخص ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت زیادہ فساد اور فتنہ پھیلے گا ‘‘۔
عبد الرزاق، المصنف، 6: 152، رقم: 10325، المکتب الاسلامي بيروت
عَنْ ابِي هرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُول الله صلی الله عليه وسلم إِذَا خَطَبَ إِلَيْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَه وَخُلُقَه فَزَوِّجُوه إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔
ترمذي، السنن، 3: 394، رقم:1084، دار احياء التراث العربي، بيروت
ابن ماجه، السنن، 1: 326، رقم: 1967، دار الفکر بيروت
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2695، دار الکتب العلمية بيروت
امام ابوداؤد روایت کرتے ہیں:
عن الحکم بن عينه ان النبی صلی الله عليه وسلم ارسل بلالا الی اهل بيت من الانصار يخطب اليهم فقالاو عبد حبشی قال بلال لو لا ان النبی صلی الله عليه وسلم امرنی ان اتيکم لما اتيتکم فقالوا النبی صلی الله عليه وسلم امرک قال نعم قالوا قد ملکت فجاء النبی صلی الله عليه وسلم فاخبره فادخلت علی النبی صلی الله عليه وسلم قطعة من ذب فاعطه ايها فقال سق هذا الی امراتک و اقل لاصحابه اجمعوا الی اخيکم في وليمه
’’حکم بن غینہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ایک انصاری کے گھر بھیجا تاکہ وہ اپنے رشتہ کا پیغام دیں۔ اس انصاری کے گھر والوں نے کہا کہ حبشی غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاکہ اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارے پاس آنے کے لئے نہ کہا ہوتا تو میں میں کبھی نہ آتا۔ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا تم اس رشتہ کے مالک ہو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاکر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سونے کا ٹکڑا آیا۔ آپ نے وہ حضرت بلال کو عطا کیا کہ یہ اپنی بیوی کے پاس لے جانا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے دوستوں سے فرمایا تم اپنے بھائی کے ولیمے کی تیاری کرو‘‘۔
مندرجہ بالا حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد عورت کا نکاح ایک حبشی غلام کے ساتھ کر کے ہر قسم کے تفاوت کو ختم کر دیا اور بتا دیا کہ اصل چیز مسلمان ہونا باقی چیزیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
قدیم زمانہ سے آج تک قومی عصبیت ہر قوم میں پائی جاتی ہے۔
اپنی قوم کی تعلیم و ترقی، عزت و عظمت اور خوشحالی و آسودگی کی تدابیر کی جائیں، مگر اس کی بنیاد محنت و جہد پر ہو کسی دوسرے کے وسائل پر قبضہ یا کسی دوسرے کی آزادی سلب کرنے یا اس کے سماجی و معاشی استحصال پر نہ ہو۔ پہلی صورت مفید اور بہتر ہے جبکہ دوسری صورت ظالمانہ و مفسدانہ ہے۔ اسلام میں شادی کے سلسلہ میں کفو کا لحاظ اسی لئے کیا گیا ہے کہ اخلاق کے ساتھ ساتھ قومی و قبائلی تعلقات کا لحاظ بھی کرلیا جائے تو رشتہ زوجیت و نکاح میں مزید پختگی پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے اور بس۔ یہ تمام تدابیر دراصل ایک ہی مسئلہ کے محکم و پائیدار کرنے کیلئے کی جاتی ہیں کہ رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ میاں بیوی کے درمیان مثالی ہم آہنگی ہو، پیار ہو، ہمدردی ہو، میل ملاپ ہو، اور ان دو کی باہمی محبت کے ذریعے ان کے والدین اور پوری برادری و خاندان تک یہ خوشگوار تعلقات پھیلتے پھولتے چلے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله علیه وسلم لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ
’’ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:دو محبت کرنے والوں میں، نکاح کی طرح (پائیدار) تمہیں کوئی اور تعلق نہیں ملے گا‘‘۔
ابن ماجه، السنن، 1: 593، رقم: 1847، دار الفکر بيروت
عَنْ عَائِشَةَ انَّ رَسُوْلَ اﷲ صلی الله عليه وسلم قَالَ اِن اعْظَمُ النّکاح بَرَکَةً يْسَرُهُ مَئُونَةً.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک بڑی برکت والا وہ نکاح ہے، جس میں آسان تر محنت کرنا پڑے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الايمان فليتق اﷲ فی النصف الباقی
’’جب آدمی شادی کرتا ہے تو آدھا ایمان مکمل کرلیتا ہے، اب جو باقی آدھا رہ گیا ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرے‘‘۔
ایک انصاری نے عرض کی، میں فلاں انصاری بی بی سے شادی کرنا چاہتا ہوں آقا علیہ السلام نے فرمایا:
فانطر اليها فان فی اعين الانصار شيئا
’’اسے دیکھ لو! بعض، انصار کی آنکھوں میں عیب ہوتا ہے‘‘۔
یہ بھی فرمایا :
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وسلم: إِذَا خَطَبَ احَدُکُمْ الْمَرْاةَ فَإِنْ اسْتَطَاعَ انْ يَنْظُرَ إِلَی مَا يَدْعُوه إِلَی نِکَاحِها فَلْيَفْعَلْ. قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَکُنْتُ اتَخَبَّا لَها حَتَّی رَيْتُ مِنْها مَا دَعَانِي إِلَی نِکَاحِها فَتَزَوَّجْتُها.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا‘‘۔
احمد بن حنبل،، المسند، 3: 334، رقم: 14626، مؤسسة قرطبة مصر
ابودؤد،،السنن، 2: 228، رقم:2082، دار الفکر
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 179، رقم: 2696، دار الکتب العلمية بيروت
بيهقی، السنن الکبری، 7: 84، رقم: 13269، مکتب دار الباز مکة المکرمة
عَنْ انَسِ بْنِ مَالِکٍ انَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ ارَادَ انْ يَتَزَوَّجَ امْرَاةً فَقَالَ لَه النَّبِيُّ ﷺ اذْهبْ فَانْظُرْ إِلَيْها فَإِنَّه احْرَی انْ يُؤدَمَ بَيْنَکُمَا فَفَعَلَ فَتَزَوَّجَها فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتِها
’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا۔ بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 4: 249، رقم: 18179
نسائی، السنن الکبری، 3: 272، رقم: 1865، دار الکتب العلمية بيروت
ابن ماجه، السنن، 1: 599، رقم: 1869، دار الفکر بيروت
دارمی، السنن، 2: 180، رقم: 2172، دار الکتاب العربی بيروت
ابو يعلی، المسند، 6: 158، رقم: 3438، دار المامون للتراث دمشق
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2679
ابن حبان، الصحيح، 9: 351، رقم: 4043، مؤسسة الرسالة بيروت
عبد الرزاق، المصنف، 6: 156، رقم: 10335، المکتب الاسلامی بيروت
ابن ابی شيبة، المصنف، 4: 21، رقم: 17388، مکتبة الرشد الرياض
عبد بن حميد، المسند، 1: 375، رقم: 1254، مکتبة مؤسسة القهرة
ابی عوانة، المسند، 13: 18، 4039، دار المعرفة بيروت
طبرانی، المعجم الکبير، 20: 433، رقم: 1052، مکتبة الزهراء الموصل
دار قطنی، السنن، 3: 253، رقم: 32، دار المعرفة بيروت
ابن جارود، المنتقی، 1: 170، رقم: 675، مؤسسة الکتاب الثقافية بيروت
بيهقی، السنن الکبری، 7: 84، رقم: 13266
مقدسی، الاحاديث المختارة، 5: 169، رقم: 1788، مکتة النهضة الحديثة مکة المکرمة
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی رو سے بعض قومیں اعلیٰ اور بعض ادنیٰ سمجھی جاتی تھیں اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن کریم نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ۔ ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں ان کی بناء پر نہ کوئی اعلیٰ ہوتا ہے نہ ادنیٰ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يٰايُها النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْط
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‘‘۔
الحجرات؛ 49: 13
اسلام کی نظر میں عزت و ذلت بڑا اور چھوٹا ہونے کا دار و مدار ایمان و کردار پر ہے حسب و نسب پر نہیں۔ دین کی نظر میں گھٹیا و کمین وہ شخص نہیں جو ایمان و عمل میں پختہ ہے با کردار ہے۔ صاحب علم و تقویٰ ہے، بہت اعلیٰ ہے۔ بزرگ تر ہے اور اگر ہاشمی، قریشی، مکی مدنی ہے۔ ایمان و عمل صالح سے محروم ہے۔ جتنا چاہے بڑا بنتا پھرے، اللہ کے نزدیک پرکاہ کے برابر عتبہ، شیبہ ولید، ہاشمی و قریشی ہو کر بھی ذلیل تر حقیر تر۔ کمین تر ہیں فریق اول کے رنگ، نسل، زبان ان کی عزت و عظمت کے آڑے آئے اور فریق ثانی کی خاندانی سرافت و نجابت ان کو عزت سے ہمکنار نہ کرسکی اور وہ نیکی سے محروم ہوکر ’’شر الدواب‘‘ ہی رہے۔ (بدترین چوپائے) ۔
خوب سمجھ لیں کہ ذات، قوم، قبیلہ صرف تعارف یعنی باہمی جان پہچان کا ذریعہ ہے۔ کسی ذات سے ہو جانا نہ تو عزت و عظمت کی سند ہے۔ نہ کسی دوسرے قبیلہ میں جنم لینا ذلت و حقارت کی علامت۔
قرآن و حدیث اور لغت عرب میں لفظ سید، ایک اعزازی لفظ ہے جو مسلم ہو یا غیرمسلم، سردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہماری عام بول چال میں جناب، Sir، ہندی میں شری، وغیرہ۔
چنانچہ قرآن کریم حدیث پاک اور لغت عرب، قدیم و جدید میں، یہ لفظ جس طرح اللہ کے نیک بندوں کیلئے استعمال ہوتا ہے اور ہوا ہے۔ اسی طرح غیر مسلم زعماء کیلئے بھی استعمال ہوا اور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے لفظ سرداری جس طرح مال و دولت و عہدہ دنیا کی خبر دیتا ہے اسی طرح روحانی، ایمانی و اخروی سرداری پر بھی دلالت کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ قیامت کے دن مجرم و منکر عوام، اللہ تعالیٰ کے حضور بطور شکوہ معذرت کہیں گے :
وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَآ اٰتِهمْ ضِعْفَيْنَ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهمْ لَعْنًا کَبِيْرًا
’’اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تھا تو انہوں نے ہمیں (سیدھی) راہ سے بہکا دیا۔ اے ہمارے رب! انہیں دوگنا عذاب دے اور اُن پر بہت بڑی لعنت کر‘‘۔
الاحزاب، 33: 6867
اسلام نے نکاح کا مقصد محبت و الفت بتایا ہے۔
لہٰذا نکاح کرتے وقت چند امور کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ جس سے میاں بیوی میں جہاں تک ممکن ہو محبت، یگانگت اور ہمدردی پیدا کر دی جائے تو جو رشتہ ازدواج کی پائیداری کا سبب ہو۔ میاں بیوی میں اتحاد و اتفاق ہو۔ اور وہ پرسکون زندگی بسر کر سکیں۔یہ بنیادی بات ہے اسلام نے یہ حق ہر مرد اور عورت کو دیا ہے لہٰذا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی پر اپنی مرضی مسلط کرے یہاں تک کہ باپ، دادا کو بھی جبر کا اختیار نہیں۔
ولا يجوز للولي اِجبار البکر البالغة علی النکاح.
’’کنواری (خواہ بیوہ یا مطلقہ) بالغ لڑکی کا زبردستی نکاح کرنے کا، اس کے ولی کو (بھی) اختیار نہیں۔
ينعقد نکاح الحرة العاقلة البالغة برضائها واِن لم يعقد عليها ولی
’’ہر آزاد، عقل مند بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرے تو نکاح ہو جاتا ہے۔
وجه الجواز انها تصرفت في خالص حقها وهي من اهله لکونها عاقلة مميزة ولهذا کان لها التصرف في المال ولها اختيار الازواج… ثم في ظهر الرواية لا فرق بين الکفء و غير الکفء ولکن للولي الاعتراض في غير الکفئ.
’’جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ عورت نے (اپنی پسند کا نکاح کر کے) خالص اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور وہ اختیار ہے کیونکہ عقل مند اور برے بھلے میں تمیز کر سکتی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اور اسے شادی کرنے کا اختیار ہے۔۔۔ پھر ظاہر روایت میں یہ ہے کہ نکاح کے جواز میں کوئی فرق نہیں کفو میں ہویا غیر کفو میں ہو یا غیر کفو میں، ہاں غیر کفو میں کرے تو ولی کو اعتراض کا حق پہنچتا ہے‘‘۔
مرغيناني، الهداية، 1: 196، المکتبة الاِسلامية
عام علماء نے فرمایا لزوم نکاح کے لیئے کفۃ، شرط ہے کہ اس کے بغیر نکاح لازم نہیں ہوتا امام کرخی رحمہ اﷲ امام مالک، سفیان ثوری رحمہ اﷲ اور حسن بصری رحمہ اﷲ نے فرمایا کفاء لزوم نکاح کے لئے شرط نہیں۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے۔
عَنْ ابِي هرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وسلم إِذَا خَطَبَ إِلَيْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَه وَخُلُقَه فَزَوِّجُوه إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْارْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین و اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں بہت بڑا فتنہ بپا ہو گا۔
ترمذي، السنن، 3: 394، رقم: 1084، دار احياء التراث العربي، بيروت
ابن ماجه، السنن، 1: 632، رقم: 1967، دار الفکر بيروت
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 179، رقم: 2695، دار الکتب العلمية بيروت
اسی طرح ایک دن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار کے بعض قبائل سے رشتہ مانگا تو انہوں نے انکار کر دیا، اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال سے فرمایا، ان سے کہو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ مجھے رشتہ دو۔‘‘
اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوی.
’’تقوی کے سوا کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔‘‘
نیز کفو کا اعتبار ضروری ہوتا تو خون میں ہوتا ادنیٰ مقتول کے قصاص میں اعلیٰ ذات کا قاتل، قتل نہ کیا جاتا تو جب خون میں کفو کا اعتبار نہیں تو نکاح میں کیوں؟ احناف اور دیگر جن ائمہ نے کفو کا اعتبار کیا ہے انہوں نے بھی کبھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ غیر کفو میں نکاح نہیں ہوتا، بلکہ یہ فرمایا کہ بالغ لڑکی غیر کفو میں نکاح کرلے اور باپ یا دادے سے اجازت نہ لے تو ان حضرات کا حق ہے اور وہ قاضی کے پاس تنسیخ نکاح کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اگر نکاح ہی نہ ہوتا تو اعتراض کس کا؟ اور تنسیخ کس کی؟
بدائع الصنائع، 2: 317
باپ یا دادے کی اجازت سے تو غیر کفو میں نکاح ناجائز ہونے کا کسی نے قول ہی نہیں کیا۔ سب کے نزدیک جائز ہے۔ جیسا کہ ہدایہ کے حوالے سے گذرا۔
وہ اسلام جس نے قبائل و اقوام کو ذریعہ فضیلت کا تعارف بتایا۔ اس کانام لے کے اتنی غلط بات کرنی، اور اس پر اصرار کرنا، اور مساوات اسلامی کے اصول بتانے پر کوئی ناراض ہو تو اس کی مرضی اﷲ و رسول کو ناراض کرکے، ہم کسی کو راضی نہیں کر سکتے۔
جن عورتوں سے شرعاً نکاح حرام ہے ان کو قرآن و حدیث میں تفصیل سے ذکر کر دیا گیا ہے: ارشاد ہوا:
حُرِّمَتْ عَلَيْکُمْ اُمَّهتُکُمْ وَبَنٰـتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰـتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّهتُکُمُ الّٰتِيْ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّهتُ نِسَآئِکُمْ وَرَبَآئِبُکُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهنّ َز فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دخَلْتُمْ بِهنَّ فَـلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ ز وَحَـلَآئِلُ اَبْـنَـآئِکُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ لا وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ ط اِنَّ اﷲَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ يْمَانُکُمْ ج کِتٰبَ اﷲِ عَلَيْکُمْ ج وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ط فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهنَّ فَـٰاتُوْهنَّ اُجُوْرَهنَّ فَرِيْضَةط وَلَا جُنَاحَ عَلَيْکُمْ فِيْمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهٖ مِنْ مبَعْدِ الْفَرِيْضَةط اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلِيْمًا حَکِيْمًا.
’’تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری (وہ) مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں (سب) حرام کر دی گئی ہیں اور (اسی طرح) تمہاری گود میں پرورش پانے والی وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں) پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی حرج نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں) جو تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے) کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ (نکاح میں) جمع کرو سوائے اس کے کہ جو دورِ جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (جنگی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاکدامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
النساء، 4: 23، 24
یہ ہے فہرست ان عورتوں کی جن سے نکاح حرام ہے یہ قرآن کریم کی سورہ نساء کی آیت نمبر23 اور نمبر 24 کا ابتدائی حصہ ہے۔اس فہرست کو بار بار پڑھیں اور دیکھیں کہیں ایک برادری کو دوسری برادری پر حرام ہونا ثابت ہے؟ نہ قرآن میں نہ حدیث میں نہ فقہ میں کہیں بھی منع نہیں ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ ہاشمی، قریشی، علوی اموی، پٹھان وغیرہ قومیں ہیں اور قوم و قبیلہ اﷲتعالیٰ نے محض تعارف یعنی باہمی جان پہچان کے لئے بنائے ہیں۔ عزت و عظمت کا دارومدار تقوی پر ہے۔ عقیدہ و عمل پر ہے۔ قوم و قبیلہ پر نہیں۔ قریش ہاشمی مکی عربی ابو جہل و ابو لہب اور ان جیسوں سے ہزار ہا درجہ افضل ہیں حبشہ کے بلال، روم کے صہیب ایران کے سلمان اور کروڑوں ہندی، سندھی، سوڈانی، صومالوی، افغانی وغیرہ وغیرہ۔
قرآن و حدیث میں سید کو غیر سید کے ساتھ نکاح منع نہیں کیا گیا۔ جو ایسا کوئی دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔ اس سے قرآن و حدیث کی صریح نص کا مطالبہ کرو! جیسا ہم نے نصوص نقل کیں۔ ان نصوص کے مقابلہ میں کسی کی ذاتی رائے قابل قبول نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔