کیا حضرت شیث مکہ میں حضرت ابراہیم سے پہلے آئے تھے؟


سوال نمبر:3055
السلام علیکم! کیا حضرت شیث علیہ السلام مکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے آئے تھے؟ کیونکہ شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں ایسا فرمایا ہے۔ قران و حدیث تو ہمیں‌ یہ بتاتے ہیں کہ مکہ میں حضرت ابراہیم کی آمد سے قبل کوئی ذی روح نہ تھا۔ براہِ مہربانی وضاحت فرمادیں۔

  • سائل: سید ذوالفقار احمدمقام: اندھرا پردیش، انڈیا
  • تاریخ اشاعت: 15 فروری 2016ء

زمرہ: فضائل حرمین الشریفین

جواب:

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ’ام القریٰ‘ کہا ہے: ارشادِ ربانی ہے:

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا.

اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ (اولاً) سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور (ثانیاً ساری دنیا میں) اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں۔

الانعام، 6: 92

مفسرین کرام نے مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ:

لان الارضين دحيت من تحتها.

مکہ کو ام القریٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ باقی زمین اس کے نیچے بچھائی گئی۔

  1. فخرالدين رازی، تفسيرِ کبير، 13: 67، دارالکتب العلمية، بيروت، لبنان
  2. حافظ ابنِ کثير، تفسيرِ قرآن العظيم، 1: 10، دارالفکر، بيروت، لبنان

قرآنِ مجید نے سورۃ آلِ عمران میں مکہ مکرمہ میں قائم خانہ خدا کو لوگوں کے لیے اولین عبادت گاہ کہا ہے۔ ارشاد ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ.

بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہے۔

آلِ عمران، 3: 96

حضرت علی بن حسین سے طواف کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے جواباً کہا:

ان الله تعالیٰ وضع تحت العرش بيتاً وهو البيت المعمور الذي ذکره الله، و قال للملائکة طوفوا به و دعوا العرش. فطافت الملائکة به و ترکوا العرش وکان اهون عليهم. ثم امر الله الملائکة الذين يسکنون فی الارض ان يبنوا له فی الارض بيتاً علیٰ مثاله و قدره. فبنوا واسمه الضراح امره من فی الارض من خلفه ان يطوفوا به کما يطوف اهل السمآء بالبيت المعمور.

اللہ تعالیٰ نے عرشِ الٰہی کے نیچے ایک گھر بنایا جس کا نام بیت المعمور ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو عرش سے بلا کر ان سے فرمایا کہ تم بیت المعمور کا طواف کرو۔ فرشتوں نے عرش کو چھوڑا اور اس کا طواف کیا۔ یہ ان کے لیے زیادہ آسان تھا۔ پھر اللہ پاک نے زمین پر رہنے والے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی اسی بیت المعمور کی طرز کا ایک گھر تعمیر کریں، انہوں نے بنایا اور اس کا نام ضراح رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ زمین پر رہنے والے اس کا طواف کریں گے جیسے آسمان میں رہنے والے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں۔

  1. بغوی، معالم التنزيل، 1: 328، دارالمعرفة، بيروت، لبنان
  2. ابواسحاق احمد بن محمد، الکشف و البيان عن تفسير القرآن، 3: 115، دار احياء التراث العربی، بيروت، لبنان

خانہ کعبہ کی پہلی تعمیر ملائکہ نے کی اور پھر جب حضرت آدم علیہ اسلام زمین پر تشریف لائے تو انہوں نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔ حضرت عبیداللہ بن زیاد روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمایا:

يا آدم ابن لی بيتاً بحذا بيتی الذی فی السماء تتعبد فيه انت وولدک کما تتعبد ملائکتی حول عرشی

اے آدم! آسمان پر جو میرا گھر ہے اس کے محاذۃ اور سیدھ میں زمین پر میرا ایک گھر بناؤ، پھر تم اور تمہاری اولاد اس کا طواف کرو جس طرح فرشتے میرے عرش کا طواف کرتے ہیں۔

  1. الازرقی، ابوالوليد محمد بن عبدالله، اخبارِ مکة، 1: 43، دارالاندلس للنشر، بيروت، لبنان
  2. السيوطی، عبدالرحمٰن بن الکمال جلال الدين، الدرالمنثور، 1: 314، دارالفکر، بيروت، لبنان

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:

قال النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم بعث جبريل الیٰ آدم و حوا فقال لهما ابنيا لی بيتاً

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کی طرف سیدنا جبریل امین کو بھیجا اور حکم دیا کہ دونوں مل کر میرا گھر بناؤ۔

ابنِ عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 7: 299، دار الفکر، بيروت، لبنان

اس حکم پر سیدنا آدم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کی جو طوفان نوح تک قائم رہی۔ طوفانِ نوح کے وقت خانہ کعبہ کی جگہ اونچے ٹیلے کی طرح رہ گئی اور اس کے تمام نشانات مٹ گئے۔ مگر لوگ برابر برکت کے لیئے یہاں آتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے۔ لوگوں کو اتنا تو یاد تھا کہ اس جگہ خدا کا گھر ہوا کرتا تھا مگر اس کی اصل جگہ کے بارے میں کوئی یقین اور اعتماد سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ لوگ اس اونچے ٹیلے پر آتے دعائیں مانگتے اور وہ قبول ہوتیں۔ بےمراد آتے اور بامراد ہو کر جاتے۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کان موضع الکعبة قد خفی و درس فی زمين الغرق فيما بين نوح و ابراهيم عليهما السلام، قال وکان موضعه اکمة خمراء مدرة لاتعلوها السول غير ان الناس يعلمون ان موضع البيت فيما هنالک ولايثبت موضعه و کان ياتيه المظلوم والمتعوذ من اقطار الارض و يدعو عنده المکروب فقل من دعا يحجون الیٰ موضع البيت.

سیدنا نوح اور ابراہیم علیہما السلام کے زمانوں کے درمیان جو سیلاب آئے ان کی وجہ سے کعبہ کی جگہ ڈوب گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ کعبہ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ ابھر آیا تھا جس پر سیلاب کا پانی چڑھتا رہتا۔ لوگ اتنا جانتے تھے کہ یہ کعبہ کا مقام ہے لیکن وہ جگہ کا تعین کرنے سے قاصر تھے۔ مظلوم اور پناہ کے متلاشی دور دراز علاقوں سے وہاں آتے اور کرب و مصیبت سے نجات کے لیے عادئیں کرتے جو مستجاب ہوتیں۔ لوگ اس جگہ کا حج بھی کرتے تھے۔

  1. الازرقی، ابوالوليد محمد بن عبدالله، اخبارِ مکة، 1: 52، دارالاندلس للنشر، بيروت، لبنان
  2. السيوطی، عبدالرحمٰن بن الکمال جلال الدين، الدرالمنثور، 1: 322، دارالفکر، بيروت، لبنان

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک کعبہ اسی حال میں رہا جب حضرت اسمعیل علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ اس میدان میں آکر ٹھہرے اور ان کی وجہ سے یہاں کچھ آبادی ہوگئی تب حضرت ہاجرہ کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر یہاں عمارت کعبہ بنائیں۔ اس کی نشانی اس طرح قائم فرمائی کہ ایک بادل کا ٹکڑا بھیجا گیا تاکہ اس کے سایہ سے کعبہ کی حد مقرر کر لی جائے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اس سایہ کی مقدار خط کھیچا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس خط پر یہاں تک زمین کھودی کہ بنیاد حضرت آدم علیہ السلام نمودار ہوگئی اور اس بنیاد پر عمارت بنائی۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ.

اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے بیت اﷲ (یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر) کی جگہ کا تعین کر دیا (اور انہیں حکم فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور میرے گھر کو (تعمیر کرنے کے بعد) طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کر نے والوں اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھنا۔

الْحَجّ، 22: 26

لہٰذا حضرت شیث علیہ السلام کا اپنی زوجہ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں رہنا اور بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی بیوی اور فرزند کو جنگل بیابان میں چھوڑ کر آنا ممکن ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری