جواب:
اسلام انسانی زندگی میں درج ذیل تین سطحوں پر انقلاب بپا کرنا چاہتا ہے اور اپنے پیروکاروں سے اِن تین سطحوں پر اطاعت و تسلیم کا اعلیٰ معیار چاہتا ہے :
1۔ انفرادی سطح
2۔ اجتماعی سطح
3۔ بین الاقوامی سطح
انفرادی سطح پر انقلاب یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے جدوجہد کی جائے، جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
’’بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)o اور بے شک وہ شخص نامراد ہو گیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)o‘‘
الشمس، 91 : 9، 10
اجتماعی سطح پر انقلاب میں پوری قوم شامل ہے۔ قرآن حکیم اس سطح پر انقلاب بپا کرنے کے لئے بھی ہدایت دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکوo‘‘
آل عمران، 3 : 200
بین الاقوامی سطح پر انقلاب کی رہنمائی بھی قرآن حکیم سے میسر آتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَO
’’یہ تو صرف جہان والوں کیلئے نصیحت ہےo‘‘
الانعام، 6 : 90
بین الاقوامی زندگی میں عداوت اور عناد ہمہ وقت کسی نہ کسی سطح پر تضاد یا تصادم کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ اس صورتحال کا علاج تمام باطل اور طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں حق کی عالمگیر فتح کا نصب العین ہے۔
ان تمام قرآنی دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام انسانی زندگی کی انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی سطحوں پر مکمل تبدیلی اور ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔