جواب:
اسلام کے معاشی نظام کی خصوصیات درج ذیل ہیں :
1۔ وہ تمام مسائل جن پر انسان کا معاشی انحصار ہے سب اﷲ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کی تخلیق ہیں۔
قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے :
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ.
’’جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 284
2۔ خالق کائنات، رازقِ کائنات بھی وہی ہے جو تمام مخلوقات کو رزق دیتا ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہے :
وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اﷲِ رِزْقُهَا.
’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔‘‘
هود، 11 : 6
3۔ اسلام کا معاشی نظام انفرادی حق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ اس میں کچھ حدود و قیود لگائی گئی ہیں لیکن انسان کو اس کے حق سے محروم نہیں کیا گیا۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ.
’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔‘‘
البقرة، 2 : 267
4۔ اسلام حق معیشت میں مساوات کا قائل ہے۔ اسباب معیشت میں ہر انسان کو فائدہ اٹھانے کا مساوی حق فراہم کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ قَلِيلاً مَّا تَشْكُرُونَO
’’اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے، تم بہت ہی کم شکر بجا لاتے ہوo‘‘
الاعراف، 7 : 10
5۔ جس طرح اسلام حقِ معیشت میں مساوات کا داعی ہے اور ہر انسان کو اﷲ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسبابِ معشیت سے فائدہ اٹھانے کا حق دیتا ہے۔ اسی طرح حالات کو سامنے رکھتے ہوئے درجاتِ معیشت میں تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یعنی اسلام میں معاشی مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ ہر ذی روح کو دنیا میں رہنے کا حق حاصل ہو، محنت اور ترقی کے راستے سب کے لئے ہوں اور وہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس کا فیصلہ اس کی محنت، قابلیت اور کام کرنے کی صلاحیت پر رکھا گیا ہے جتنا وہ کام کرے گا۔ اسی حساب سے معیشت میں اس کا درجہ ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاللّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْرِّزْقِ.
’’اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق (کے درجات) میں فضیلت دی ہے (تاکہ وہ تمہیں حکمِ انفاق کے ذریعے آزمائے)۔‘‘
النحل، 16 : 71
اس کے پس منظر میں اس آیت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہو گا۔ جہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰیo
’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)o‘‘
النجم، 53 : 39
مذکورہ بالا اساسی تصورات کے ساتھ اسلام نے معاشیات کے میدان میں اخلاقی اقدار کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں تقویٰ، احسان، ایثار، عدل، اخوت، تعاون، توکل، قناعت اور مساوات اہم ہیں۔ ان کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔