جواب:
بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر راہ اعتدال کو ترک کرچکی ہے اور زندگی کے ہر معاملہ و گوشے میں افراط و تفریط کا شکار ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دور حاضر میں کارہائے تجدید میں سے ایک اہم پہلو بے اعتدالی و افراط و تفریط کا شکار امت مسلمہ کو ایک مرتبہ پھر توازن اور اعتدال کی طرف لانا ہے۔
ماضی قریب میں ہمارے ہاں فرقہ واریت کے ماحول نے مسالک میں تقسیم کی ایسی خلیج پیدا کردی تھی کہ اہل سنت کے ہاں اہل بیت سلام اللہ علیہم اجمعین کا ذکر مفقود ہوچکا تھا اور اہل تشیع کے ہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم نے اصحاب رسول اور اہل بیت اطہار کو اہل سنت اور اہل تشیع میں تقسیم کردیا تھا۔ اہل سنت پر خارجیت کا اثر بڑھتا جارہا تھا جبکہ اہل تشیع پر رافضیت غالب آتی جارہی تھی۔ ایسے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف اہل سنت کے ہاں ذکرِ اہلِ بیت اور ذکرِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا آغاز کیا بلکہ اہل سنت کے ذخائرِ احادیث کو کھنگال کر ان میں سے درۃ البيضاء في مناقب فاطمۃ الزہراء سلام اللہ عليہا، سيف الجلي علیٰ منکر ولايت علی، مرج البحرين في مناقب الحسنين جیسی کتابیں مرتب کرکے ایک طرف اہل سنت کا یہ پیغام دیا کہ اہل بیت اطہار سے محبت اور تعلق تقاضائے اسلام ہے نہ کہ شیعیت اور دوسری طرف اہل تشیع کو بھی یہ پیغام دیا کہ اصل اہل سنت کے ہاں اہل بیت اطہار کی محبت ہی معیار ایمان ہے۔ اس طرح شیخ الاسلام نے تفریق کے ماحول میں برداشت اور بقائے باہمی کی سوچ کو رائج کیا۔
اہل سنت کا لبادہ اوڑھے اگر کسی نے خارجیت کے اثر کے تحت شان حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر کوئی علمی حملہ کیا تو اس کے دفاع میں شیخ الاسلام نے ہی ’دفاع شانِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم‘ کے عنوان سے 9 گھنٹے کا طویل خطاب کیا۔
بعض تبرائیوں نے شانِ صحابہ میں TV پر آکر گستاخانہ زبان استعمال کی تو ’دفاع شان شیخین رضی اللہ عنہما‘ پر 35 گھنٹے سے زائد 23 موضوعات پر خطابات بھی آپ ہی نے ارشاد فرمائے۔
جس طرح اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان صحابہ اور اہل بیت کی تقسیم کردی گئی تھی، اسی طرح اہل سنت اور اہل حدیث و اہل دیوبند کے درمیان اللہ اور رسول کی تقسیم بھی واضح دیکھی جاتی تھی۔ ایک طرف وہابیت کی تحریک کے ذریعے اسلام کو توحید کے نام پر نسبتِ رسالتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق و غلامی رسالتِ مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آزاد کرانے کی تحریک کا اثر اہل حدیث اور دیوبند مکتبہ فکر کے ہاں صاف نظر آنے لگا تھا تو دوسری طرف محبت الہٰی، ذکر الہٰی، حقیقت توحید کے مضامین اہل سنت کے ہاں مفقود ہوتے جارہے تھے۔ ربط رسالت کے ذریعے تعلق باللہ کی فکر کو متعارف کرواتے ہوئے شیخ الاسلام نے ان دوریوں کو ختم کرنے پر بہت توانائی صرف کی۔ آپ نے نہ صرف نسبتِ رسالت اور غلامی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچار کیا بلکہ ساتھ ساتھ تعلق باللہ، معرفت توحید باری تعالیٰ، تعلیمات تصوف کے احیائ، محافل ذکر، اجتماعی اعتکاف، شب بیداریوں اور روحانی اجتماعات کے ذریعے تقویٰ، اخلاص و للہیت کے حصول پر بھی برابر توانائی صرف کی۔
آپ کی معلومات درست نہیں ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں شیخ الاسلام ڈکٹر محمد طاہرالقادری کے بیسیوں خطابات موجود ہیں۔ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب پر مشتمل خطابات کی فہرست ملاحظہ کرنے کے لیے یہاں کلک کیجیے
ولایت اور خلافت کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے شیخ الاسلام کے درج ذیل خطابات ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔