جواب:
کوئی صحیح العقیدہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کا انکار نہیں کرتا اور نہ کرسکتا ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث اور ائمہ اسلام کی تصریحات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی بھی تمام انبیائے کرام صلٰوۃ اﷲ و سلامھم کی بشریت قطعاً ثابت ہے۔ اس کا انکار کفر ہے اور کوئی مسلمان کافر نہیں ہو سکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام کی بشریت و آدمیت ان آیات میں واضح کئی گئی ہے۔
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً.
’’فرما دیجئے : میرا رب (ان خرافات میں الجھنے سے) پاک ہے میں تو ایک انسان (اور) اﷲ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں‘‘۔
بنی اسرائیل، 17 : 93
سورۃ المئومنون میں فرمایا :
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ.
’’اور ان کی قوم کے (بھی وہی) سردار (اور وڈیرے) بول اٹھے جو کفر کر رہے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں (مال و دولت کی کثرت کے باعث) آسودگی (بھی) دے رکھی تھی (لوگوں سے کہنے لگے) کہ یہ شخص تو محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے، وہی چیزیں کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی کچھ پیتا ہے جو تم پیتے ہو‘‘۔
المومنون 23 : 33
وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ.
’’اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو پھر تم ضرور خسارہ اٹھانے والے ہو گے‘‘۔
ایضاً : 34
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو حق کی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس بھیجا تو انہوں نے بھی ان کو بشر کہہ کر نبی ماننے سے انکار کر دیا۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ.
’’سو انہوں نے (بھی یہی) کہا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم کے لوگ ہماری پرستش کرتے ہیں‘‘۔
ایضاً : 47
فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ.
’’پس انہوں نے (بھی) ان دونوں کو جھٹلا دیا سو وہ بھی ہلاک کیے گئے لوگوں میں سے ہو گئے‘‘۔
ایضاً : 48
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ.
’’تم فرماؤ اس ظاہر صورت انسانی میں تو میں تم جیسا آدمی ہی ہوں مجھے وحی آتی ہے‘‘۔
الکھف 18 : 110
لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہ السلام بشر تھے آپ کی بشریت کا انکار کفر ہے کہ قرآن کا انکار ہے مگر صرف بشر ہی نہ تھے بلکہ آپ ایسے بشر تھے جن کو وحی کی گئی اور جس بشر کو وحی کی جائے وہ نبی ہوتا ہے جیسے سربراہ ملک۔ بشر ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور اس وصف میں کوئی اس کی برابری نہیں کر سکتا ہر بشر بادشاہ نہیں ہوتا ہمارا وزیر اعظم انسان ہوتا ہے مگر ملک میں ایک ہی ہوتا ہے اس جیسا دوسرا اس وصف میں اس کا شریک نہیں ہو سکتا نبی انسان اور بشر ہوتا ہے مگر نبوت و رسالت ایسی صفتیں ہیں جن کی بنا پر کوئی دوسرا ان جیسا نہیں ہوتا۔ جب کسی بشر اور انسان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت لگ جائے تو وہ تمام انسانوں سے ممتاز ہو جاتا ہے وحی والا آدمی رسول ہوتا ہے نبی ہوتا ہے دوسرا آدمی ہزار فضیلت رکھتا ہو نبی کی مثل نہیں ہوتا جب عالم اور جاہل برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں، مومن اور کافر برابر نہیں، نیک اور بد برابر نہیں پھر نبی اور غیر نبی کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ ہاں ظاہری شکل وصورت میں، کھانے پینے میں، تندرست اور بیمار ہونے میں، بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں، بعض امور میں ظاہری مشابہت و مماثلت موجود ہے لیکن فضائل کو نظر انداز کر کے مماثلت کی رٹ لگانے سے تو کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فضائل و کمالات والوں کو عام آدمی کی طرح کہتے رہنا دراصل ان کے فضائل و کمالات کا انکار۔ ان سے بغض و حسد اور منافقت کی علامت ہے۔ آپ فوجی افسر کو کیپٹن۔ میجر، کرنل، بریگیڈئر او جنرل نہ کہیں اور محض انسان کہتے رہیں۔ صدر، وزیراعظم سیکرٹریز اور دوسرے عہدیداروں کو صرف ان کے ناموں سے پکاریں اور ان کے عہدوں کا ذکر نہ کریں۔ ماں باپ، چچا، تایا، استاد، محدث، مفسر، مورخ، سائنس دان، عالم، فقہیہ، ولی کو آدمی ہی کہتے رہیں اور ان کو ان محترم ناموں سے نہ بلائیں جو ان کمالات کے آئینہ دار ہیں تو آپ نے گویا ان صاحبان کمال کے فضل و کمال کا انکار کیا ہے لہذا انبیائے کرام آدمی ہیں، بشر ہیں مگر یہی کچھ نہیں وہ رسول ہیں، نبی ہیں اللہ کے محبوب ہیں۔ اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ مخلوق خدا کی نجات کا ذریعہ ہیں، مقبول شفاعت ہیں، ماذون من اللہ ہیں۔ اللہ کے بنانے سے تمام دنیا کے حاکم غیر مشروط ہیں، مطاع ہیں امر ہیں، نہی ہیں، حلال و حرام کرنے والے ہیں، متبوع ہیں، مصطفی ہیں، مرتضی ہیں، مجتبی ہیں بشر تھے مگر رسول بشر نہ کہ عام بشر۔ وہ بشر ہونے کے ساتھ نور تھے اور ہیں کسی بریلوی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ بشر نہیں ہر ایک کو موت آنی ہے نبی ہو یا غیر نبی مگر رسول کی موت بھی نرالی ہے اور حیا ت بھی۔
أًمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنَّ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُم وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ.
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے (کہ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے۔ جو دعویٰ (یہ کفّار) کر رہے ہیں نہایت برا ہے‘‘۔
الجاثیہ 45 : 21
جب نیک و بد برابر نہیں ہوسکتے تو نبی اور غیر نبی کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ گو شکل و شباہت، کھانے پینے، سونے، اور بیماری، تندرستی میں ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں برابر نہیں۔ بڑا بنیادی فرق ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔