جواب:
ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں، کام بھی کریں، شرعا جائز ہے۔ لیکن آپ کوشش کریں کہ ان کو اس کے بارے میں آگاہ کریں کہ اس کام کا کتنا گناہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فعل کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ کیونکہ آپ لوگ اس سے نفرت کریں گے یا اپنا تعلق توڑ دیں گے تو اس کی تربیت کون کرے گا۔ لہذا نفرت گناہ سے کریں گنہگار سے نہیں۔ اگر آپ لوگ اس کے ساتھ بائیکاٹ کر لیں تو اس کا علاج کون کرے گا؟ جیسے مریض کا علاج کرنے کے بجائے ڈاکٹر اس سے نفرت کرنا شروع کر دیں تو علاج ممکن نہیں ہو گا۔ اسی طرح آپ بھی اس سے نفرت نہ کریں بلکہ اس کی تربیت کریں۔
ایک بندے میں کوئی برائی پائی جائے اس کو دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا ہی تو غیبت ہے لہذا اس کے بارے میں دوسروں کو آگاہ نہ کیا جائے۔ ہاں بعض اوقات غیبت کرنا گناہ نہیں ہوتا مثلا کوئی بندہ کسی کے خلاف کوئی پلان تیار کرے جس سے اس کا نقصان ہو گا تو ایسی صورت میں جس کے خلاف پلان بنایا ہو اس کو آگاہ کرنا گناہ نہیں تاکہ اس کو نقصان سے بچایا جائے یا حکومت جاسوسی کروائے تو جائز ہے۔ اسی طرح سیاست دانوں اور دیگر لوگوں کے کالے کرتوت جن سے عوام کو نقصان پہنچ رہا ہو ان کو کھول کھول کر بیان کرنا گناہ نہیں ہے یہ غیبت نہیں ہو گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔