کیا حیلہ اسقاط جائز ہے؟


سوال نمبر:2819
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا حیلہ اسقاط جائز ہے اور اس کا صحیح طریقہ بتائیے؟

  • سائل: سبزار احمدمقام: سری نگر
  • تاریخ اشاعت: 14 اکتوبر 2013ء

زمرہ: ایصال ثواب

جواب:

حیلہ اسقاط جائز ہے۔ حیلہ اسقاط سے مقصود یہ ہے کہ مسلمان میت سے احکام خداوندی کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں ہوئیں، ان کوتاہیوں کے ازالہ کے لیے کوئی شرعی حیلہ کیا جائے تاکہ میت کو فائدہ ہو اور غرباء کی مدد۔ شرعی اصول یہ ہے کہ جب تک کسی امر شرعی کی خلاف ورزی نہ ہو، ہر کام کم از کم جائز ہوتا ہے۔ اگر حیلہ اسقاط کرنے والے اسے فرض یا واجب نہیں مانتے تو اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس حیلہ شرعیہ سے احکام شرع کو ٹالنا مقصود نہ ہو کسی کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو، کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا مقصود نہ ہو، وہ اگر نیک نیتی سے کیا جائے تو جائز ہے اور قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کسی بات پر اپنی بیوی سے ناراض ہو گئے اور قسم اٹھا لی کہ میں اسے سو ضربیں ضرور لگاؤں گا۔ غصہ اترا تو پریشان ہو گئے کہ نہ ماروں تو قسم ٹوٹنی ہے، ماروں تو اس اللہ والی کا کوئی قصور نہیں۔ اب قسم کیسے پوری ہو؟ اللہ تعالی نے حکم دیا:

وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌo

(اے ایوب!) تم اپنے ہاتھ میں (سَو) تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور (اپنی قسم پوری کرنے کے لئے) اس سے (ایک بار اپنی زوجہ کو) مارو اور قسم نہ توڑو، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا، (ایّوب علیہ السلام) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھاo

ص، 38 : 44

یوسف علیہ السلام نے اپنے حقیقی چھوٹے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روکنا چاہا تو سوچا بھائی رکاوٹ ڈالیں گے۔ ابھی اپنے اظہار کی اجازت نہ تھی۔ نوکروں سے فرمایا شاہی پیمانہ چھوٹے بھائی کے سامان میں رکھ دینا۔ پھر نوکروں نے کہا اے اہل قافلہ تم چور ہو۔ برادران یوسف نے اس کا برا منایا تو سرکاری اہل کاروں نے ان کے سامان کی تلاشی لی۔ بنیامین کے سامان سے شاہی پیمانہ برآمد ہو گیا۔ اہل کارواں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کو (بظاہر) چور قرار دے کر یوسف علیہ السلام کی منشاء کے مطابق بنیامین کو روک لیا۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کے اس فعل پر اعتراض وارد ہوتا تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی کو کسی الزام سے بچانے کے لیے اس تمام کاروائی کی نسبت اپنی طرف کر دی فرمایا:

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ.

پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔

يوسف، 12 : 76

مذکورہ بالا دونوں آیات پر بار بار غور کریں، قرآن وسنت سے بعینہ یہ صورت مسئلہ ثابت ہوتی تو اسے فرض یا واجب کہتے۔ عمل کرنے والے اسے ایک جائز حیلہ شرعی قرار دیتے ہیں۔ اس امید پر کہ میت کو فائدہ ہو گا، ان شاء اللہ۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ چند حقدار لوگوں کو دائرے کی شکل میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ کچھ پیسے اور چیزیں اکھٹی کر کے ایک کو دیتے ہیں پھر وہ دوسرے کو دیتا ہے۔ پھر وہ تیسرے کو دیتا ہے اسی طرح آگے آگے دیتے جاتے ہیں اور اس کا ثواب مرنے والے کو بھیجتے ہیں۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی