جواب:
جنت عیش و آرام کی ایسی جگہ کا نام ہے جو ایمان والوں کو ان کے ایمان اور عمل کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی چیز تیار کر رکھی ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ اس کی خوبیوں کو کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کی ماہیت کا خیال گزرا۔ اس کی دیوار سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہے۔ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے، زمین زعفران کی کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت سے بنی ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1185، کتاب بدء الخلق، رقم : 3072
جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُO
الرحمن، 55 : 58
’’گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا :
وَ زَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌO
الغاشية، 88 : 16
’’اور پھیلی ہوئی چاندیاں ہیں۔‘‘
جنت میں سو درجے ہیں، ہر درجے کی چوڑائی اتنی ہے جتنی زمین سے آسمان تک اور دروازے اتنے چوڑے ہیں کہ ایک بازو سے دوسرے بازو تک تیز گھوڑا ستر برس میں پہنچے۔ جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتیں۔ طرح طرح کے پھل، میوے، دودھ، شہد، شراب، اچھے کھانے جنتیوں کو دیئے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌO
الرحمن، 55 : 68
’’ان میں میوے اور کھجوریں اور انار ہیں۔‘‘
جنتی خوبصورت لباس میں ملبوس ہوں گے جو دنیا میں کسی کو نصیب نہ ہوئے ہوں گے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا :
مُتَّكِئِينَ عَلَى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍO
الرحمن، 55 : 76
’’تکیہ لگائے ہوئے (ہیں) سبز بچھونوں اور منقش خوبصورت چاندیوں پر۔‘‘
جنت اور اہل جنت کبھی فنا نہ ہوں گے۔
اس میں جنتیوں کو کسی قسم کی تکلیف یا غم نہ ہو گا بلکہ وہ ہمیشہ راحت و آرام میں رہیں گے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
’’پکارنے والا پکار کر کہے گا (اے جنت والو!) تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور تم آرام سے رہو گے کبھی محنت و مشقت نہ اٹھاؤ گے۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 2182، کتاب الجنة و صفة نعمها، رقم : 2837
جنت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو جنتیوں کو نصیب ہو گا جس کے مقابلے میں ساری نعمتیں ہیچ ہوں گی۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑے مرتبے کا جنتی وہ شخص ہو گا جو صبح و شام دیدار الٰہی سے مشرف ہو گا۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی :
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌO إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌO
القيامة، 75 : 22 - 23
’’یعنی اس روز بہت سے چہرے اپنے پروردگار کے دیدار سے تروتازہ اور خوش و خرم ہوں گے۔‘‘
ترمذي، السنن، 8 : 688، کتاب صفة الجنة، رقم : 2553.
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔