جواب:
قرآن پاک میں ہے :
وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّواْ الصِّيَامَ إِلَى الَّيْلِ.
البقرة، 2 : 187
اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو،
احادیث مبارکہ میں ہے :
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.
عاصم بن عمر بن خطاب، ان کے والد محترم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف سے آ رہی ہو اور دن اس طرف سے جا رہا ہو اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔
ایک اور حدیث پاک میں ہے :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ لِبَعْضِ القَوْمِ: يَا فُلاَنُ قُمْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ؟ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَلَوْ أَمْسَيْتَ؟ قَالَ: انْزِلْ، فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُمْ، فَشَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.
حضرت عبد اللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا تو آپ نے ایک آدمی سے فرمایا : اے فلاں ! اٹھو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ ! شام ہونے دیجئے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ عرض کی کہ یا رسول اللہ ! شام تو ہو جائے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو گھولو۔ عرض گزار ہوا کہ ابھی تو دن ہے۔ فرمایا کہ اترو اور ہمارے لیے ستو بناؤ۔ پس وہ اترا اور ان کے لیے ستو بنائے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمائے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آ رہی ہے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔
مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے۔ جونہی غروب آفتاب ہو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ ہمیشہ خیر وخوبی سے رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے :
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لاَ يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ.
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود ونصاری دیر کیا کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب کے بعد ہے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا جونہی وقت شروع ہو جائے روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔
آئیے اب دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کس طرح فرماتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں ہے :
عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
حضرت معاذ بن زہرہ کو یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب افطار فرماتے تو کہتے۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَمِّهَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ صَائِمًا فَلْيُفْطِرْ عَلَى التَّمْرِ فَإِنْ لَمْ يَجِدِ التَّمْرَ فَعَلَى الْمَاءِ فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ.
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے اگر کھجور میسر نہ آئے تو پانی سے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔
حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِىُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ عَلَى رُطَبَاتٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّىَ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَعَلَى تَمَرَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ.
ثابت بنانی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے سے پہلے تر کھجوروں کےساتھ روزہ افطار فرماتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خشک کھجوروں سے۔ یہ بھی نہ ہوتا تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غروب آفتاب کے فورا بعد روزہ افطار فرماتے تھے۔ کھجور ہوتی تو کھجور کےساتھ نہیں تو پانی کے ساتھ روزہ افطار فرماتے۔ باقی رہا مسئلہ دعا کا مروجہ دعا جو ہم مانگتے ہیں یہ تو نہیں لیکن یہ بھی اس میں چند الفاظ کا اضافہ ہے جو حضرت معاذ نے روایت کی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔