السلام علیکم! ایک مشہور روایت ہے کہ’’ رمضان کے تین عشرے ہیں پہلا رحمت کا، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات کاہے‘‘۔ اس روایت کے بارے میں محدثین کے اقوال ہیں:
1۔ امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے (العلل لابن ابی حاتم : 1/249)
2۔ امام عقیلی کہتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں (الکامل3/1157)
3۔ شیخ البانی کہتے ہیں یہ روایت باطل ہے (الضعیفہ : 871)
دو اور بھی حوالے ہیں مگر میں اپنا سوال مختصر کر رہا ہوں۔ برائے مہربانی اس رویت کی صحت کے متعلق وضاحت فرمادیں۔ شکریہ
جواب:
یہ حدیث مبارکہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ ابو بکر سلمی نیشاپوری نے اپنی صحیح اور ابوبکر احمد بن الحسن بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی مفسرین ومحدثین نے اس کو نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے لیکن یہ من گھڑت روایت نہیں ہے۔ اس کے حدیث ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یاد رکھیں ضعیف ہو کر بھی حدیث، حدیث ہی رہتی ہے، اس کے متن کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جو سرے سے کوئی روایت ہی نہ ہو اس کو من گھڑت کہتے ہیں اس کا متن خود بنایا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث موجود ہے اس کے متن کا انکار نہیں کریں گے خواہ یہ ضعیف ہے لیکن حدیث ہے۔ فضائل میں حدیثِ ضعیف بھی قابلِ قبول ہے ۔یہاں چونکہ کوئی فرض یا واجب ثابت نہیں کیا جا رہا صرف رمضان کے عشروں کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ مسلمان اجر وثواب کی امید جگائیں، وہ اس طرح کی افوائیں پھیلا کر لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں جو چیزیں امت میں کبھی اختلافی نہیں تھیں ان میں بھی اختلاف کے پہلو تلاش کرتے رہتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔