جواب:
عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔ خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ جبکہ شکر کے معانی عربی لغت میں اظہارِ احسان مندی، جذبہ سپاس گزاری کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر کا تانا بانا استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے۔ اس وصف کو قائم رکھنا ہی صبر ہے۔ مسلمان کی پوری زندگی صبر و شکر سے عبارت ہے۔ دین اسلام کی ہر بات صبر و شکر کے دائرے میں آجاتی ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَO
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔‘‘
القصص، 28 : 54
اللہ تعالیٰ نے دیگر نیک اعمال کے مقابلہ میں صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍO
’’(محبوب میری طرف سے) فرما دیجئے : اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گاo‘‘
الزمر، 39 : 10
شکر اخلاق، اعمال اور عبادات کا بنیادی جزو ہے۔ جذبۂ شکر کے بغیر تمام اعمال و عبادات بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :
مَّا يَفْعَلُ اللّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللّهُ شَاكِرًا عَلِيمًاO
’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہےo‘‘
النساء، 4 : 147
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ شکر کو ملا کر ذکر کیا اور ان دونوں کو رفع عذاب کا باعث قرار دیا۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَاذْکُرُوْنِيْ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کروo‘‘
البقره، 2 : 152
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم ! آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا.
’’کہا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب صفة القيامة و الجنة و النار، باب : اکثار الاعمال و الاجتهاد فی العبادة، 4 : 2172، رقم : 2825
گویا پتہ چلا کہ صبر و شکر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ملا دیا اور قرآن حکیم میں دونوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍO
’’تو وہ کہنے لگے : اے ہمارے رب! ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں(عِبرت کے) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے منتشر کر دیا۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیںo‘‘
السباء، 34 : 19
حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الشکر نصف الايمان والصبر نصف الايمان و اليقين الايمان کله.
’’صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔‘‘
بيهقی، شعب الايمان، 4 : 109، رقم : 4448
یعنی یقین دونوں کی اصل ہے اور یہ دونوں اس کے پھل ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔