جواب:
ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے اگر دلائل قرآن وحدیث کے زیادہ قریب اور پختہ ہوں تو ہم اکابرین میں سے کسی سے بھی اختلاف کر سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ فروعی مسائل میں کسی سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں اختلاف تو فرشتوں نے اللہ تعالی سے بھی کیا تھا لیکن حکم آ جانے کے بعد سب سجدہ ریز ہو گئے لیکن شیطان مخالفت پر اتر آیا تو مردود ہو گیا۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر دیکھ لیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا لیکن آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے فیصلے کے بعد سب نے تسلیم کر لیا۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد ہم کوئی اپنی رائے نہیں پیش کر سکتے نہ ہی اپنی رائے پر عمل کر سکتے ہیں۔ باقی ہر انسان سے اختلاف ہو سکتا ہے اس پر ہم عمل بھی کر سکتے ہیں، لیکن یہ اختلاف علمی ہونا چاہیے، حسد، بغض اور ضد کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے۔
اختلاف اصول میں ہرگز نہیں ہوتا یہ صرف فروع میں ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگردوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اوقات ہم آپ کے شاگردوں کے فتوی پر عمل کرتے ہیں، لیکن امام صاحب کے فتوی پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر امام احمد رضا خان قادری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی سے بھی علمی اختلاف ہو سکتا ہے۔
مزید مطالعہ کے لیے درج ذیل سوالات پر کلک کریں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔