سوال نمبر:2469
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامد ایک مذہبی رہنما اور ملی قائد ہے۔ ایک دینی ادارہ جو حامد کی زیر سرپرستی ہے، اس ادارہ کے دو ملازم ایک سنگین جرم کی وجہ سے ادارہ کے مہتمم نے برطرف کر دیئے، لیکن ان دونوں ملازمان نے مہتمم کے اس برطرفی کے نوٹس کو یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ مہتمم کو ہمیں برطرف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، ہمیں صرف شوریٰ برطرف کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ اس ادارہ کی ایک مجلس شوریٰ بھی ہے، جس میں علما ء اور دانشوران قوم شامل ہیں۔ کچھ ارکان شوریٰ کی ان مجرم ملازمان کو حمایت حاصل ہے، جنہوں نے ان دونوں کو یہ دلاسہ دیا ہوا ہے کہ چاہے مہتمم کو نکلنا پڑے لیکن تمہیں نہیں نکلنے دیا جائیگا۔
ادارہ کے مہتمم کا اصرار ہے کہ ان کا یہ جرم اور سابقہ جرائم ادارہ کے لئے نقصان کا باعث ہیں، اس لئے انہیں جانا ہی ہوگا۔ ان حالات کو جب سرپرست کے سامنے رکھا گیا تو سرپرست نے ہنگامی شوریٰ طلب کرنے کا حکم دیا اور شوریٰ طے کر دی گئی۔ سرپرست کا احترام ارکان شوریٰ بھی کرتے ہیں اور ادارہ کے ملازمین بھی، سرپرست نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو جانا ہی ہوگا۔ اس فیصلہ میں چونکہ ان ارکان شوریٰ کی دلشکنی ہو رہی تھی جنہوں نے ان ملازمان کو دلاسہ اور امید بندھائی ہوئی تھی اور ان ارکان شوریٰ کو سرپرست ادارہ اپنے ملی اور رفاہی کاموں میں بڑے معاون سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان ارکان شوریٰ نے سرپرست سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر ان کو نکالنا ہی ہے تو ان کے ساتھ دو ملازم اور برطرف کےئے جائیں اور ایسے دو ملازمان کی نشاندہی کی جنکا کوئی گناہ نہیں تھا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک تو ان میں سے تقریباً چالیس سال سے ادارہ کی دل وجان سے خد مت بھی کر رہے تھے اور ادارہ انکی خدمت وصلاحیت کا معترف بھی تھا (جسکا ثبوت یہ ہے کہ دو مرتبہ اس سے بڑے ادارہ میں ان کا تقرر ہوا لیکن ادارہ کے ذمہ داروں نے انکی سخت ضرورت محسوس کرتے ہوئے اس ادارہ سے ان کو واپس مانگ لیا) اور آج جبکہ انکے یا کسی اور کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے بارے میں بھی اس طرح کا کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ سرپرست ادارہ نے یہ سوچ کر کہ ا ن ارکان شوریٰ کو ناراض کرنے سے ملی اور رفاہی کام متأثر ہونگے (اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جب مہتمم ادارہ سے اس ناروا فیصلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو مہتمم نے اس ادارہ کا نام لیکر’’ سرپرست جس کے روح رواں ہے ‘‘یہ کہا کہ اس کو بھی چلانا ہے اور مدرسہ بھی چلانا ہے) ان کو انکی خدمات کا اور انکے بے گناہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ’’مصلحت اسی میں ہے ‘‘کہہ کر برطرف کر دیا اور وہ ارکان شوریٰ جنکا یہ مطالبہ تھا وہ تو کچھ بولے ہی نہیں لیکن جو دل سے اس فیصلہ پر راضی نہیں تھے وہ بھی احترام سرپرست میں کچھ نہیں بولے اور ایک رکن نے اعتراض کیا تو ان کی سنی نہیں گئی۔
جواب طلب امر یہ ہے کہ ایک عوامی ادارہ سے ان مصالح کے پیش نظر ایک بے گناہ کو برطرف کر دینا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ واضح جواب عنایت فرما کر اپنے دینی فریضہ کو انجام دیں اور سائل کو شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ واضح رہے کہ استفتاء سے سائل کا مقصد کسی قسم کی تخریب کاری یا فتنہ کو ہوا دینا بالکل نہیں ہے بلکہ سائل خود سرپرست ادارہ کی امانت ودیانت، زہد وورع، دینداری وخدا ترسی، نیز ملی اور رفاہی خدمات کا دل سے معترف ہے مقصد صرف یہ ہے کہ بتقاضائے بشریت خطأ وسہواً اگر کوئی فیصلہ خلاف شریعت ہو گیا ہے، (جیسا کہ لگ رہا ہے) تو سرپرست ادارہ کی خدمت میں اسے موافق شریعت کرنے کی درخواست کیجائے اور اگر موافق شریعت ہے تو آمنا وصدقنا والسلام
- سائل: عبیداللہ خانمقام: 1456 گرودوارہ روڈ گاندھی نگر دہلی
- تاریخ اشاعت: 26 مارچ 2013ء
جواب:
جس طرح ملکی قانون ہوتا ہے، اسی طرح ہر ادارے کے بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں۔ اسلامی
اداراہ ہو اس کے قوانین قرآن وحدیث کے مخالف ہوں۔ اسلام کے علاوہ بھی جو مذاہب ہیں
ان میں بھی جو قانون اور ضابطے ہوتے ہیں ان میں بھی گناہ کسی پر ظلم کرنے کی کوئی
اجازت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی مذہب ظلم وبربریت کی اجازت نہیں دیتا، جھوٹ، چوری، ڈاکے
اور دہشت گردی وغیرہ کو سب ہی غلط مانتے ہیں۔ بہرحال کسی بھی مذہبی وملی ادارے میں
قوانین ہوتے ہیں۔ اچھے ادارے اور اچھے معاشرے میں ہر ایک کو حق ہوتا ہے کہ وہ پوچھ
سکتا ہے کہ کسی کو کیوں برطرف کیا گیا ہے یا کوئی بھی کاروائی اس کے خلاف کیوں کی
گئی ہے؟ یہاں بھی بے گناہ برطرف ہونے والے ملازمین کو ادارے کے قوانین بھی دیکھنے
چاہیں تاکہ شرعا اور قانونا اپنا حق حاصل کرنے کےلیے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا
سکیں۔
لہذا شرعا اور قانونا قصور وار ملازمین کو برطرف کرنا جائز ہے، اگر انہوں نے اس
نوعیت کا جرم کیا ہے جس کے مطابق ان کو برطرف کیا جا سکتا ہے لیکن بالکل بے گناہ
ملازمین کو بلاوجہ برطرف کرنا شرعا اور قانونا جائز نہیں ہے اسلام اس کی اجازت نہیں
دیتا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔