جواب:
درج ذیل حدیث مبارکہ صرف امام بخاری رضی اللہ عنہ نے ہی روایت نہیں کی بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے محدثین نے اس کو روایت کیا ہے:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اﷲِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم اسْتَيْقَظَ لَيْلَةً فَقَالَ سُبْحَانَ اﷲِ مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتْنَةِ مَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الْخَزَائِنِ مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ يَا رُبَّ کَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ.
’’ابن مقاتل، عبداﷲ، معمر، زہری، ہند بنت حارث نے حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک رات بیدار ہوئے تو فرمایا: آج رات کتنے فتنے نازل کیے گئے ہیں اور کتنے خزانے اتارے گئے ہیں ہے کوئی جو اِن حجرے والی عورتوں کو جگائے دنیا میں کتنی ہی ملبوس ہونے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی‘‘۔
سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ حدیث مبارکہ امام بخاری رضی اللہ عنہ نے خود نہیں گھڑی، انہوں نے تو روایت کی ہے جیسا کہ باقی محدثین نے روایت کی ہے۔ یہ اصل میں فتنہ انکار حدیث کے جراثیم ہیں جو ائمہ ومحدثین کو بدنام کر کے لوگوں کو حدیث سے دور لے جانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل نہ کر لیں۔ ان لوگوں کا اصل مقصد دین سے دور کرنا ہے جس کے لیے بڑے بڑے حیلے بہانے بناتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی حدیث کی غلط وضاحت کر کے سادہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حدیث مبارکہ میں بیان کیے گئے نکات کی وضاحت درج ذیل ہے۔
1۔ فتنے نازل ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے فتنے تیار کر کے لوگوں پر نازل کر دیئے تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان فتنوں کا علم عطاء ہوا تھا۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعد میں آنے والے فتنوں سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ یہ بدبخت لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم وعرفان کا اطراف کرنے کی بجائے لوگوں کو الٹی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور تقدیر الہی کا سراسر انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچھائی اور برائی سے آگاہ کر دیا ہے۔ اب لوگوں کی مرضی ہے جو اپنائیں گے اسی کا بدلہ پائیں گے۔ جو اچھے کام کو اپنائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا۔ جو برے کاموں میں دلچسپی رکھے گا وہ ناکام ہو جائے گا۔
معترض سے یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ جو چیز آسمان کی طرف سے نہ ہو کیا وہ اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہوتی یا معاذ اللہ زمین پر اللہ تعالی کا قبضہ نہیں ہے؟
کیا ہر اچھی بری تقدیر اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ہے؟
2۔ خزانے اترنے سے مراد رحمتیں اور برکتیں ہیں۔
3۔ نفلی عبادت کی ترغیب فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازدواج مطہرات کو بھی بیدار کرنے کی طرف اشارہ دیا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اعلان فرما رہے تھے کہ جو بھی آئے ان حجرے والیوں کو جگا دے۔ بلکہ اس سے مراد ہے اپنے گھر والوں کو بھی نفلی عبادت کی ترغیب فرمائی۔
4۔ 'دنیا میں کتنی ہی ملبوس ہونے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی' سے مراد ہے جو عورتیں دکھاوا کرتی ہیں۔ وہ آخرت میں خالی ہوں گی یعنی آخرت میں ان کے نامہ اعمال میں کچھ نہیں ہو گا۔ توجہ دلائی جا رہی ہے جو عمل دکھاوا کے لیے کیا جائے اس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
آج کل اسلام پر مختلف انداز میں دشمنان اسلام کی طرف سے حملے ہو رہے ہیں، ان میں سے ایک انکار حدیث کا بھی ہے۔ کچھ لوگ تو واضح طور پر انکار کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے صرف قرآن ہی کافی ہے۔ حدیث تو بعد میں لکھی گئی ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ لیکن کچھ لوگ ایک نئے انداز سے چکر چلاتے ہیں کہ پہلے حدیث کو جمع کرنے والوں کے بارے میں نفرت پھیلائی جائے پھر لوگ خود ہی حدیث مبارکہ کو نظر انداز کر دیں گے۔ اس لیے وہ ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ کے بارے میں طرح طرح کے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ بہر حال یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ وہ حق کو مٹا دیں گے، بلکہ وہ جتنا حق کو دبائیں گے ان شاء اللہ حق اتنا ہی مضبوط ہو کر ابھرے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔