کیا حج سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟


سوال نمبر:2336
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا حج کرنے سے پرانے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، قضاء (نماز، روزہ، زکوۃ، اور قرضے) وغیرہ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

  • سائل: مستقیم چودھریمقام: ابو ظہبی، متحدہ عرب امارات
  • تاریخ اشاعت: 23 جنوری 2013ء

زمرہ: حج

جواب:

متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے:

عن ابی هريرة رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم من حج هذا البيت، فلم يرفت، ولم يفسق، رجع کما ولدته امه.

"حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس گھر (کعبہ) کا حج کیا اور وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر) اس طرح واپس لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا"۔

  1. بخاری، الصحيح، 2 : 645، رقم : 1723، دار ابن کثير اليمامة، بيروت.

  2. مسلم، الصحيح، 2 : 983، رقم : 1350، دار احياء التراث العربی، بيروت.

اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ ہیں جن میں اس سے ملتا جلتا مضمون بیان ہے۔

شارحین حدیث نے مختلف آراء پیش کی ہیں۔

  1. حج کرنے سے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں۔
  2. صغیرہ، کبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں جو حقوق اللہ میں آتے ہیں، لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے ہیں۔
  3. تیسری رائے یہ ملتی ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد صغیرہ وکبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

بہرحال ہمیں اس بحث ومباحثہ میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کو بھی حج وعمرہ کی سعادت نصیب ہو اسے صدق دل سے اور خلوص نیت کے ساتھ اس عمل کو اچھی طرح سرانجام دینا چاہیے۔ باقی معاملہ اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کی مرضی جتنا اجر دے۔ یہ تو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ایک شخص گنہگار وسیاہکار ہو، وہ صدق دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے تو اللہ تعالی توبہ قبول فرمانے والا ہے، اس کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالی تو نیتوں کے بھید جانتا ہے۔ صدق دل اور خلوص نیت ہو تو بعید نہیں سب کے سب گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر کوئی ہو ہی ظلم کرنے والا ڈاکو، قاتل اور دھوکہ باز اور وہ حج بھی اسی نیت سے کرے کہ لوگ اس کو نیک سمجھیں اور اس کے گھیرے میں آتے رہیں تو ایسے حج وعمرہ، نماز، روزہ وغیرہ اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہونگے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی