کیا اسلام میں زبردستی کی شادی جائز ہے؟


سوال نمبر:2315
السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں یا شریعت میں زبردستی شادی کی گنجائش ہے؟ میں اور میرے والدین نے جس لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا تھا تو اس کے چچا نے کہا ہے کہ وہ اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کرے گا کیونکہ پہلا حق اس کا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود وہ لڑکی اور اس کے گھر والے یعنی اس لڑکی کی ماں اور بڑا بھائی اس زبردستی والے رشتہ کے لیے راضی نہیں‌ ہیں۔ جبکہ لڑکی کا باپ فوت ہو چکا ہے؟ تو کیا یہ زبردستی والے چچا جی حق پر ہیں؟ اور کیا میرا اس رشتے پر اسرار کرنا ٹھیک ہے؟ کیا اسلام میں بھاگ کی گنجائش ہے۔ برائے مہربانی جلدی جواب عنایت فرمائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں زبردستی تیسری پارٹی کی طرف سے ہے۔

  • سائل: مشتاق احمدمقام: خیبر پختونخواہ، پاکستان
  • تاریخ اشاعت: 13 دسمبر 2012ء

زمرہ: نکاح

جواب:

1۔ اسلام میں زبردستی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ.

(النِّسَآء ، 4 : 3)

تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔

اور حدیث پاک میں ہے :

ان النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال : لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن.

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے"۔

  1. بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لاتنکح الاب وغيره البکر والثيب الابرضاها، دار ابن کثير اليمامة، بيروت.

  2. مسلم، الصحيح، 2 : 1036، رقم : 1419، باب استئذان الثيب فی النکاح بالنطق والبکر بالسکوت، دار احياء التراث العربی بيروت،

معلوم ہوا قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے۔ لڑکا لڑکی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لڑکی کا چچا اگر لڑکی کی مرضی کے بغیر اپنے بیٹے سے نکاح کرے گا تو وہ نکاح قابل قبول نہیں ہو گا۔

لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح کرنا کسی کا حق نہیں ہے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے نہ ہی ہمارا ملکی قانون، اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی رپورٹ متعلقہ ادارے کو فراہم کریں تاکہ لڑکی ظلم وستم ہونے سے بچ سکے۔

2۔ اگر وہ لڑکی آپ کے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہو تو پھر آپ کا اسرار کرنا درست ہے ورنہ نہیں۔

3۔ آپ اس معاملے کو بااثر کے ذریعے حل کریں، بھاگنے دوڑنے سے حالات زیادہ خراب ہونگے اور گھر کے باقی افراد بھی ذلیل وخوار ہو جائیں گے۔ یہ بہتریں حل ہے۔ نہیں تو پھر اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جائے تاکہ لڑکی پر ظلم نہ ہو۔

المختصر نکاح کے لیے لڑکے لڑکی دونوں کا حق مہر کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں رضامندی سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح منعقد نہ ہو گا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی