جواب:
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنِ النَّزَّالِ قَالَ : أَتِيَ عَلِيٌّ رضی الله عنه عَلَی بَابِ الرَّحَبَةِ بِمَاءٍ فَشَرِبَ قَائِمًا فَقَالَ : إِنَّ نَاسًا يَکْرَهُ أَحَدُهُمْ أَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَعَلَ کَمَا رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ.
’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا جبکہ وہ حویلی کے دروازے کے پاس تھے تو انہوں نے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور ارشاد ہوا کہ اگر کوئی آدمی کھڑا ہو کر پانی پیئے تو کچھ لوگ اسے مکروہ جانتے ہیں حالانکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔
بخاری الصحيح، 5 : 2130، باب الشرب قائما، رقم : 5292، دار ابن کثير اليمامة بيروت
بيهقی، السنن الکبری، 7 : 282، رقم : 14424، مکتبة دار الباز مکة المکرمة
حَدَّثَنَا آدَمُ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ مَيْسَرَةَ : سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه : أَنَّهُ صَلَّی الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الْکُوفَةِ، حَتَّی حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَکَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ قَالَ : إِنَّ نَاسًا يَکْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، وَإِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ.
’’عبد الملک بن میسرہ کا بیان ہے کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا کہ انہوں نے نمازِ ظہر پڑھی، پھر لوگوں کی حاجت روائی کرنے کے لئے کوفہ کی جامع مسجد کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ گئے، یہاں تک کہ نمازِ عصر کا وقت ہوگیا۔ پھر آپ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے نوش فرمایا اور اپنے منہ ہاتھ دھوئے۔ شعبہ راوی نے سر اور پیروں کا بھی ذکر کیا ہے پھر آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے کھڑے بچا ہوا پانی نوش فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ جانتے ہیں حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا جیسے میں نے کیا ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، 5 : 2130، رقم : 5293
اعلم أنه قد وردت أحاديث بجواز الشرب قائماً ووردت أحاديث بمنعه (فمن أحاديث الجواز) حديث علی و حديث ابن عباس روا هما البخاري هنا و حديث ابن عمر رواه الترمذی من حديث نافع عنه و قال کنا نأکل علی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و نحن نمشی و نشرب و نحن قيام ثم قال هذا حديث حسن صحيح و أخرجه ابن ماجة و ابن حبان و حديث سعد بن أبی وقاص رضی اﷲ عنه رواه الترمذی فی الشمائل عنه أن النّبی صلی الله عليه وآله وسلم کان يشرب قائماً و اِسناده حسن و حديث عائشة أخرجه النسائی من حديث مسروق عنها قالت رأيت النّبی صلی الله عليه وآله وسلم يشرب قائماً و قاعدًا الحديث و حديث أنس رواه أحمد (فی مسنده) أن النّبی صلی الله عليه وآله وسلم دخل و قربة معلقة فشرب من فم القربة و هو قائم الحديث و حديث الحسين بن علي رويناه عن شيخنا زين الدين رحمه اﷲ رواه فی الجزء العاشر من (فوائد أبی بکر الشافعی) من رواية زياد ابن المنذر عن بشير بن غالب عن حسين بن علي رضی اﷲ عنهما قال رأيت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يشرب قائماً و حديث خباب بن الارت رويناه عن شيخنا و هو يرويه عن مجاهد من حديث من حديث الطبراني عنه قال بعثنا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی سرية فأصا بنا العطش و ليس معنا ماء فتنوخت ناقة لبعضنا فاذا بين رجليها مثل السقاء فشربنا من لبنها فهذا من فعل الصحابة فی زمنه فيکون فی حکم الموفوع و حديث أبی هريرة رضی اﷲ عنه رويناه عن شيخنا و هو يروی من حديث سعيد بن جبير فی (المعجم الصغير) للطبرانی أنه قال حدثنی أبو هريرة أنه رأی النّبی صلی الله عليه وآله وسلم يشرب من زمزم قائما و حديث أم سليم رويناه عن شيخنا و هو يروی من حديث أنس عن أمه فی (مسند أحمد) قالت دخل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم و فی البيت قربة معلقة فشرب منها قائماً و حديث کبشة أخرجه الترمذي و ابن ماجه عنها قالت دخل علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فشرب من فی قربة معلقة قائماً و حديث کلثم رواه أبو موسی المدينی فی کتاب (معرفة الصحابة) قالت دخل علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فشرب من قربة معلقة و هو قائم وحديث عبد اﷲ بن عمرو بن العاص أخرجه عبد الرزاق عن عمر و بن شعيب عن أبيه عن جده قال رأيت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم شرب قائماً و قاعدًا و حديث عبد اﷲ بن السائب بن خباب عن أبيه عن جده قال رأيت رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قام اِلی فخارة فيها ماء فشرب قائماً رواه أبو محمد بن أبی حاتم الرازی بسند صحيح.
’’جان لیجئے کہ کھڑے ہو کر پینے کی حدیثیں بھی آئی ہیں اور منع کی بھی جواز کی حدیثوں میں سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حدیث ابن عباس رضی اﷲ عنہ ہیں جنہیں امام بخاری نے یہاں روایت کیا ہے اور حدیث ابن عمر جسے ترمذی نے نافع سے ذکر کیا ہے اور کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں چلتے پھرتے کھانا کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے۔
پھر ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے ابن ماجہ اور ابن حبان نے ذکر کیا ہے۔ اور حدیث سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ جسے ترمذی نے شمائل میں ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر پیتے تھے، اس کی سند حسن ہے اور حدیث سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا جسے امام نسائی نے مسروق کے حوالہ سے ان سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھے ہوئے پیتے دیکھا ہے اور حدیث انس رضی اﷲ عنہ جسے امام احمد رحمہ اﷲ نے اپنی مسند میں ذکر فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، مشکیزہ لٹک رہا تھا، سرکار نے اس کے منہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہ کی حدیث، جسے ہم نے اپنے شیخ زین الدین رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، جسے انہوں نے فوائد ابوبکر شافعی کے دسویں جزء میں زیاد بن المنذر عن بشیر بن غالب عن حسین بن علی کی روایت سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے اور خباب بن الارت کی حدیث جسے ہم نے اپنے شیخ اور وہ حضرت مجاہد سے طبرانی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا ہمیں سخت پیاس لگی، ہمارے پاس پانی نہ تھا ہم میں سے ایک صاحب کی اونٹنی بیٹھی ہوئی تھی دیکھتے کیا ہیں کہ اس کے پاؤں کے درمیان مشکیزے کی طرح دودھ سے بھرا ہوا ہے تو ہم نے اس کا دودھ پیا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ فعل صحابہ کرام کا ہے جو مرفوع کے حکم میں ہے اور معجم صغیر طبرانی حضرت سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابو ھریرہ رضی اﷲ عنہ نے یہ حدیث سنائی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانی کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اور ام سلیم کی حدیث مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے گھر میں مشکیزہ لٹک رہا تھا آپ سرکار نے اس سے کھڑے ہو کر پانی پیا اور حدیث کبشہ جسے ترمذی اور ابن ماجہ نے ان سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ نے مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی پیا اور حدیث کلثم جسے ابو موسیٰ المدینی نے اپنی کتاب معرفۃ الصحابہ میں ان سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور لٹکے ہوئے مشکیزے سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کی حدیث جسے امام عبد الرزاق رحمہ اﷲ نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑے اور بیٹھے پانی پیتے دیکھا ہے اور عبد اللہ بن سائب بن خباب عن ابیہ عن جدہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ نے مشکیزہ سے کھڑے ہو کر پانی پیا۔ اسے محمد بن ابی حاتم الرازی نے سند صحیح سے روایت کیا ہے‘‘۔
بدر الدين عينی، عمدة القاری شرح صحيح بخاری، 21 : 193، دار احياء التراث العربی بيروت
ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ کی مرفوع حدیث ہے :
لو يعلم الذی يشرب و هو قائم لاستتاء.
’’اگر کھڑے ہو کر پینے والے کو معلوم ہو تو قے کر دے‘‘۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر ہرگز نہ پئے بھول ہو جائے تو قے کر دے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے ڈانٹا ہے یونہی ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے ترمذی نے جارود بن المعلی سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اہل ظاہر نے ان احادیث سے کھڑے ہو کر پینے کو حرام کہا ہے۔
1۔ نہی محمول ہے مکروہ تنزیہی پر تحریمی پر نہیں۔ اسی قول کی طرف وہ آئمہ گئے ہیں جو حدیث و فقہ میں مطابقت کرتے ہیں جیسے الخطابی، ابو محمد بغوی، ابو عبد اللہ المازری، قاضی عیاض، ابو العباس القرطبی، ابو زکریا النووی رحمھم اﷲ تعالٰی۔
2۔ یہاں کھڑے ہو کر پینے والے سے مراد چلتے پھرتے پینے والا ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًا.
(اٰل عمران، 3 : 75)
یعنی مسلسل اس کے پاس اپنی امانت مانگنے کیلئے پھیرے لگاتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں : قم فی حاجتنا. ’’ہمارا کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو‘‘۔ یہ قول ہے علامہ ابن التین کا۔
3۔ یہ ارشاد اس صورت پر محمول ہے کہ آدمی اپنے ساتھیوں کیلئے مشروب لائے اور کھڑے کھڑے پہلے خود پینا شروع کر دے یہ معنی ابو الولید الباجی اور المازری نے ذکر کیا ہے۔
4۔ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کی حدیثیں ضعیف ہیں یہ قول مالکیہ کی ایک جماعت نے کیا ہے جن میں علامہ ابو عمر ابن عبد البر بھی شامل ہیں اور اس قول میں گفتگو کی گنجائش ہے۔
5۔ منع کی حدیثیں منسوخ ہیں یہ بات ابو حفض بن شاھین اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں کہی ہے۔
6۔ ابن حزم ظاہری نے کہا منع کی حدیثیں کھڑے ہو کر پینے کی روایات کی ناسخ ہیں۔
7۔ امام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا صحیح تر بات یہ ہے کہ یہ ممانعت مکروہ تنزیہی کو ثابت کرتی ہے رہا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے۔ لہٰذا کوئی اشکال و تعارض نہیں اور کہا کہ یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے اسی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے نسخ کا قول غلط ہے۔ میں یہ کہتا ہوں امام نووی نے یہاں تو یقینی طور پر مکروہ کہا ہے اور اپنی کتاب الروضہ کے اندر امام الرافعی کی پیروی کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز قرار دیا ہے۔
علامه بدر الدين عينی، عمدة القاری، شرح بخاری، 21 : 193
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحيح البخاری، 10 : 81، المکتبة السلفية دار الفکر
أن النهی فيها محمول علی کراهة التنزيه وأما شربه صلی الله عليه وآله وسلم قائما فبيان للجواز فلا اشکال ولا تعارض وهذا الذی ذکرناه يتعين المصير اِليه.
’’اس مسئلہ میں منع محمول ہے کراہت تنریہی پر رہا سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کھڑے ہو کر پینا تو یہ بیان جواز کیلئے ہے پس کوئی اشکال ہے نہ تعارض اور یہ تشریح جو ہم نے کی اسی کو اختیار کرنا بہتر ہے‘‘۔
امام نووی، شرح النوی علی صحيح مسلم، 13 : 195، دار احياء التراث العربی بيروت
وکان أکثر شربه قاعدا بل زجر عن الشرب قائما وشرب مرَّة قائما فقيل هذا نسخ لنهيه وقيل بل فعله لبيان جواز الأمرين.
’’سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر بیٹھ کر پیتے تھے بلکہ آپ نے کھڑے ہو کر پینے پر ڈانٹا اور کبھی کھڑے ہو کر پیا، کہ دونوں طریقے جائز ہیں‘‘۔
محمد بن أبی بکر الزرعی، زاد المعاد، 1 : 149، مؤسسة الرسالة. مکتبة، بيروت. الکويت
لا بأس بالشرب قائما ولا يشرب ما شيا ورخص للمسافرين ولا يشرب بنفس واحد.
’’کھڑے ہو کر پینے میں کوئی حرج نہیں ہے چلتا پھرتا نہ پیئے مسافروں کے لیے اسکی رخصت ہے اور ایک سانس میں نہ پیئے‘‘۔
الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 5 : 341، دار الفکر
خلاصہ ان تصریحات شرعیہ کا یہ ہے کہ معذور افراد کیلئے تو ویسے ہی ہر قانون میں رعایت و استثناء موجود ہے وہ نماز، روزہ، حج اور کھانے پینے میں اس شرعی رعایت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن کھڑے ہو کر کھانے پینے میں غیر معذور افراد کو بھی گناہنگار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولیٰ کہہ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔