جبرا نکاح کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟


سوال نمبر:2241
السلام علیکم مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی آپس میں ملتے ہیں اور اس سے لڑکی حاملہ ہو جاتی ہے۔ اب سات یا اٹھ ماہ بعد والدین کو پتہ چلتا ہے کہ بچی حاملہ ہوئی ہے۔ ماں باپ کہ پوچھنے پر لڑکے کا نام بتاتی ہے کہ فلاں لڑکا ہے۔ جب لڑکے سے پوچھتے ہیں تو وہ انکاری ہوتا ہے۔ پھر لڑکی قسم کھاتی ہے، میرا ملاپ اس لڑکے کے سوا کسی سے نہیں ہوا ہے۔آخر فیصلہ ہوتا ہے۔ لڑکی کہ والد ایک لاکھ روپیہ لیکر زبردستی لڑکے سے نکاح کروا لیتا ہے، (۱) شریعت کے حساب سے اس نکاح کی کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ نکاح ہو جاتا ہے؟ (۲) اور پیدا ہونے والے بچہ اس باپ کا کہلائے گا؟ (۳) اور بغیر نکاح کا جو ملاپ ہوا ہے تو اس کا گناہ ہو گا یا نہیں؟ (۴) یہ زنا میں شمار ہو گا یا نہیں؟

  • سائل: آجمل خانمقام: کراچی
  • تاریخ اشاعت: 17 اکتوبر 2012ء

زمرہ: زنا و بدکاری  |  نکاح

جواب:

اگر لڑکی واقعی اسی لڑکے سے حاملہ ہوئی ہو پھر تو ان دونوں کے لیے بہتر ہے کہ ان دونوں کا ہی نکاح کیا جائے تاکہ دونوں کی خواہش پوری ہو سکے۔

  1. اگر لڑکا یا لڑکی اس کے لیے رضامند نہ ہوں تو یہ نکاح نہیں ہوا۔ کیونکہ نکاح کے لیے ضروری ہے کہ لڑکا لڑکی اپنی رضامندی سے ایجاب وقبول کریں۔
  2. جہاں تک پیدا ہونے والا بچے کا معاملہ ہے، چونکہ نکاح کے بغیر حمل ٹھہرا ہے اس لیے وہ لڑکا اس کا باپ نہیں کہلائے گا۔ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔
  3. نکاح کے بغیر لڑکی اور لڑکے کا ملاپ زنا ہی کہلائے گا۔ چاہے بعد میں نکاح کر لیں۔ زنا حرام ہے اور حرام سخت گناہ ہے۔
  4. نکاح کے بغیر ملاپ کرنا خالص زنا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری