جواب:
خلافت عثمانی میں سیدنا حذیفہ بن الیھان فتح ارمینیہ و اذر بیجان کے زمانہ میں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ اس زمانہ میں اہل عراق و شام کے ہمراہ شریک جہاد تھے۔ آپ نے لوگوں میں قراتِ قرآن کریم کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا تھا، اس پر اظہار پریشانی کیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کی، امیر المومنین!
ادرک هذه الامة قبل ان يختلفوا فی الکتاب اختلاف اليهود والنصاری.
اس سے پہلے کہ امت کتاب اللہ میں اختلاف کرنے لگے جیسے یہود ونصاریٰ نے کیا۔ اس کو سنبھال لیجئے۔
اس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ آپ قرآن کریم کا نسخہ (مصحف) ہمیں بھیج دیں تاکہ اسے کئی مصاحف میں ہم نقل کر لیں، پھر آپ کو یہ نسخہ واپس کر دیں گے، سو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن الزیر، سیدنا سعید بن العاص، سیدنا عبدالرحمن بن الحارث بن ھشام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا۔ ان حضرات نے متعدد مصاحف میں اسے نقل فرمایا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان میں سے تین قریشیوں سے فرمایا۔ جب کسی لفظ قرآن میں تم اور زید بن ثابت میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا۔ کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا ہے سو ان حضرات نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب مصاحف کے نسخے تیار ہوگئے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس کر دیا اور لکھے گئے نسخوں میں سے ہر علاقے میں ایک نسخہ بھیج کر ساتھ ہی یہ حکم دیدیا کہ۔
بما سواه من القرآن فی کل صحيفة او مصحف ان يحرق الخ.
اس کے علاوہ کسی بھی صحیفے یا مصحف میں لکھا ہوا قرآن جلا دیا جائے۔
صحيح بخاری ، 2:746
ہمارے فقہائے کرام نے لکھا ہے ۔
المصحف اذا صار خلقا لا يقرا منه ويخاف ان يضيع يجعل فی خرقة طاهرة ويدفن ودفنه اولیٰ من وضعه موضعا يخاف ان يقع عليه النجاسة او نحو ذلک ويلحد له لانه لو شق ودفن يحتاج الی اهالة التراب عليه وفی ذلک نوع تحقير الا اذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب اليه فهو حسن ايضاً. المصحف اذا صار خلقا وتعذرت القرأة من لا يحرق بالنار.
جب قرآن کریم پرانا ہو جائے اور پڑھا نہ جائے اور ضائع ہونے کا ڈر ہو تو اسے پاکیزہ کپڑے میں باندھ کر دفن کر دیا جائے اور دفن کرنا اس سے بہتر ہے کہ کسی ایسی جگہ رکھدیا جائے جہاں اس پر نجاست وغیرہ پڑھنے کا ڈر ہو اور دفنانے کے لئے لحد کھودے کیونکہ اگر سیدھا گڑھا کھودا اور اس میں بوسیدہ قرآن دفن کردیا تو اوپر مٹی ڈالنے کی ضرورت پڑے گی اور اس میں ایک طرح کی بے ادبی ہے۔ ہاں اگر اوپر چھت ڈال دے کہ قرآن کریم تک مٹی نہ پہنچے تو یہ بھی اچھا ہے۔ قرآن کریم جب بوسیدہ ہو جائے اور اس سے قرات مشکل ہو جائے آگ میں نہ جلایا جائے۔
فتاویٰ عالمگيری ، ۵:۳2۳ طبع ترکی
لہذا بہتر یہی ہے کہ بوسیدہ اوراق قرآن کریم کے ہوں۔ یا حدیث پاک کے یا کسی دینی کتاب کے جن میں قرآن و حدیث کے حوالے نقل کئے گئے ہوں ان کو جلایا نہ جائے اور مذکورہ بالا طریقہ سے ان کو دفنا دیا جائے۔ مگر اس خیال سے کہ آج کل دفنانے کیلئے محفوظ زمین کا ملنا مشکل ہے بالخصوص شہروں میں نیز جہاں محفوظ جگہ سمجھ کر ان اوراق کو دفنایا گیا ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی انسان لاعلمی میں اس جگہ پر پیشاب کرے اور گندے اثرات ان اوراق مبارکہ تک پہنچ جائیں۔ دریا برد کرنے میں بھی بے ادبی کا آج کل بہت امکان ہے جبکہ اختلاف و انتشار امت سے بچنے اور فتنہ و فساد کے امکانات ختم کرنے کی خاطر صحابہ کرام کی موجودگی میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے نسخوں کو جلوا دیا اور کسی صحابی نے اس پر انکار نہ کیا۔ پس جلانے کے جواز پر جبکہ نیت قرآنی تقدس کی حفاظت کرنا ہو۔ معاذ اللہ بے ادبی کرنا نہ ہو، صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا ہے۔ اسی لئے فقہائے کرام نے بہت نرم لہجے میں جلانے سے منع فرمایا مگر جلانے پر کوئی سخت حکم نہ لگایا، کہ اس کے جواز کی بنیاد موجود تھی۔
پس مذکورہ استاد صاحب سے کوئی غیر شرعی کام نہیں ہوا۔ عام لوگوں کو چونکہ علم نہیں اس لئے وہ ایسے مواقع پر بھڑک جاتے کچھ مخالفین بھی شرارت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ اور ہدایت نصیب فرمائے۔
مزید مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں
مقدس اوراق کو بے ادبی سے بچانے کا طریقہ کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔