جواب:
اگر فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے اور نمازی کو یقین ہو جائے کہ سلام پھیرنے سے پہلے پہلے سنتیں ادا کر لے گا تو اسے پڑھنی چاہیے اور اگر پتہ ہو کہ سنتیں ادا کرنا مشکل ہے اتنی دیر میں جماعت فوت ہو جائے گی تو وہ سنتیں ادا نہ کرے بلکہ جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے اور پھر سورج طلوع ہونے کے بعد اشراق کے وقت سنتیں ادا کرے۔
یہ حکم صرف فجر کی سنتوں کے بارے میں ہے کسی اور نماز کی سنتوں کے بارے میں نہیں کیونکہ فجر کی سنتوں کے بارے میں جو تاکید حدیث مبارکہ میں آتی ہے وہ کسی اور سنتوں کے بارے میں نہیں آئی ہے۔ لہذا یقین کی صورت میں سنتیں ادا کرنی چاہیے ورنہ بعد میں اشراق کے وقت ادا کرے۔
نماز کے فورا بعد سنتیں ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
حضور علیہ الصلاہ والسلام نے فجر کی سنتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا :
عن عائشة رضی الله عنها قالت لم يکن النبی صلی الله عليه وآله وسلم علی شئی من النوافل اشد تعاهدا منه علی رکعتی الفجر.
متفق علیہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نفلی نمازوں میں سے سب سے زیادہ فجر کی دو رکعتوں (سنتوں) کی پابندی فرمایا کرتے تھے۔
عن عائشة رضی الله عنها قالت قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم رکعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها، رواه مسلم
مشکوة المصابيح صفحه 104
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فجر کی دو رکعتیں یعنی دو سنتیں دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔