سوال نمبر:2059
السلام علیکم مجھے ایک فتوے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 4 یا 5 سال پہلے میرا کسی کے ساتھ نکاح ہوا تھا مگر وہ نکاح مسجد میں نہیں ہوا تھا۔ اس نکاح میں میری طرف سے دو لڑکیاں شامل تھیں اور لڑکے کی طرف سے ان کا ایک دوست تھا جبکہ نکاح پڑھانے والا میرا چھوٹا بھائی تھا۔ مگر میرے والد وہاں نہیں تھے۔ کچھ عرصے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وہ نکاح قابل قبول نہیں ہے کیونکہ نہ ہی نکاح کی دعا صحیح طریقے سے پڑھائی گئی تھی اور نہ ہی میرے والد میرے ولی وہاں موجود تھے۔ مجھے اب کسی بڑے نے کہا ہے کہ کیونکہ یہ سب گناہ ہوا ہے، اس لیے فتوی لینا ضروری ہے۔ اس نکاح کا میرے ماں باپ کو علم نہیں تھا اور میں ان کو بتا نہیں سکتی کیونکہ اس سے میرا اور ان کا رشتہ خراب ہو جائیگا، میں اپنے ماں باپ کھونا نہیں چاہتی، اور میں ان کو اب بھی کچھ نہیں بتا سکتی۔ براہ مہربانی کوئی حل بتا دیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کیونکہ میرے والد موجود نہیں تھے اس لیے یہ نکاح بنتا ہی نہیں ہے۔ اور نکاح کی دعا کونسی پڑھی گئی تھی۔ اب یہ بھی ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔
- سائل: نامعلوممقام: نامعلوم
- تاریخ اشاعت: 28 اگست 2012ء
جواب:
والدین کے بغیر اگر عاقل و بالغ لڑکا لڑکی نکاح کرتے ہیں تو یہ نکاح ہو جاتا ہے۔
اگر عاقل بالغ لڑکا اور لڑکی مسلمان گواہوں کی موجودگی میں حق مہر کے ساتھ ایجاب
وقبول کرتے ہیں تو یہ نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور یہ شرعی طور پر میاں بیوی بن جاتے
ہیں۔ نکاح کے وقت دو مرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں حق مہر کے
ساتھ ایجاب و قبول کیا تو یہ نکاح منعقد ہو گیا ہے۔ چاہے والدین کی رضا ہے یا نہیں
والدین موجود ہیں یا نہیں۔
نکاح کے لیے درج ذیل چیزیں ضروری ہیں اگر یہ پائی جاتی ہوں تو نکاح ہو جاتا ہے۔
- گواہ
- حق مہر
- ایجاب و قبول
اس کے علاوہ دعائیں مستحب اور خطبہ مسنون ہے۔ اصل چیز گواہ، حق مہر اور ایجاب و
قبول ہے۔ لہذا آپ کا نکاح صحیح ہے۔ آپ دونوں میاں بیوی ہیں۔ طلاق کے بغیر آپ کسی
دوسری جگہ شادی نہیں کر سکتی۔ بہتر یہی ہوتا کہ آپ اپنی اس تقریب میں والدین کو
راضی کر کے شامل کرتی اور والدین کو بھی چاہیے تھا کہ آپ کی رضا کو دیکھتے آپکی
پسند کو قبول کرتے۔ بہر صورت آپ اپنے معاملات بہتر جانتی ہیں۔ نکاح کی جو صورت آپ
نے بتائی ہے اس میں آپ کا نکاح شرعی ہے اور آپ دونوں شرعی طور پر میاں بیوی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔