سوال نمبر:2032
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں محمد عمر ولد اللہ بچایا عرف (بچو) بستی قائم بِھٹ شاہ ڈاکخانہ دانی تحصیل مظفرگڑھ چند عرصہ پہلے محمد یوسف کی بیٹی حمیدہ سے نکاح ہوا ساتھ ہی رخصتی بھی ہو گئی لیکن ہمارے گاؤں میں امام صاحب نے کوئی دستی تحریری یا دستحط نہیں لیے اور ہم دونوں کا شرعی اعتبار سے نکاح پڑھایا گیا۔ چند عرصے کے بعد میری بیوی حمیدہ جو کہ میرے چچا کی لڑکی ہے۔ کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنے باپ کے گھر چلی گئی اور دو تین ماہ کے اندر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش جو کے اتحاد ٹاؤن، کراچی سے آئے تھے وہ میری بیوی کو اپنے نکاح میں لیکر چلے گئے جبکہ میں نے اُسے طلاق نہیں دی تھی۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کے پڑھانے والے نکاح خواں جو کراچی سے آئے تھے۔ سید محمد شاہ نواز اختراِ نہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ لڑکی طلاق شدہ نہیں ہے۔گھر کے تمام لوگوں نے اور کچھ محلے کے لوگوں نے جھوٹی گواہی دی کہ اس کو طلاق ہو گئ ہے تو اُنہوں نےگواہی پر نکاح پڑھایا۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی جس کا نام حمیدہ ولد محمد یوسف جس کو میں نے طلاق نہیں دی اور جھوٹی گواہیوں پر اُس کا دوسرا نکاح محمد رمضان ولد محمد واحد بخش سے ہوا تو کیا نکاح اور اس سے ہونے والے بچے شریعت میں جائز ہیں یا حرام ہیں؟
- سائل: محمد عمر مقام: کراچی ، پاکستان
- تاریخ اشاعت: 27 اگست 2012ء
جواب:
اگر تو واقعی دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکے اور لڑکی نے
ایجاب وقبول کیا تھا پھر تو شرعا یہ نکاح ہو گیا لیکن اس کو تحریری صورت میں نہ لا
کر امام صاحب نے ملکی قانون کی خلاف ورزی کی اور آپ دونوں پر بھی ظلم کیا۔
بقول آپ کے آپ نے اسے طلاق نہیں دی تو دوسرے شخص کے ساتھ نکاح قائم ہی نہیں ہوا۔
قرآن پاک میں ہے :
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ
النساء 4 : 24
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں)۔
یعنی نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔
لہذا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح نہیں ہوا اگر وہ اکھٹے رہیں گے تو ساری عمر زنا
کریں گے جب تک پہلا شوہر طلاق نہ دے دے اور عدت گزرنے کے بعد وہ دوبارہ نکاح نہ کر
لیں یا پہلا شوہر وفات پا جائے پھر بھی عدت کے بعد وہ نکاح کر سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔